´بے آباد و بنجر زمین کو آباد کرنے کا بیان`
انہی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے بھائی کو ایسا ضرر پہنچانا کہ اس کے حق میں کمی واقع ہو جائے اور پہنچائی گئی اذیت و ضرر سے زیادہ ضرر و نقصان پہنچانا جائز نہیں۔“ اسے احمد، ابن ماجہ نے روایت کیا اور ابن ماجہ میں ابوسعید سے اسی طرح کی حدیث منقول ہے اور وہی حدیث موطا میں مرسل ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 779»
تخریج: «أخرجه ابن ماجه، الأحكام، باب من بني في حقه ما يضر بجاره، حديث:2341، وأحمد:5 /327، وحديث أبي سعيد أخرجه الحاكم:2 /58، والبيهقي:6 /69، 70، ومرسل يحي المازني أخرجه مالك:2 /745.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے‘ مثلاً: مسند احمد کے محققین نے تفصیلی بحث کے بعد اسے حسن قرار دیا ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ اور الإرواء میں صحیح قرار دیا ہے‘ نیز دکتور بشار عواد اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف اور متناً صحیح ہے‘ لہٰذا یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود مجموعی طور پر دیگر شواہد اور متابعات کی وجہ سے متنا ً و معنًا صحیح ہے جیسا کہ محققین کی جماعت نے کہا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۵ /۵۵‘ ۵۶‘ والصحیحۃ‘ رقم:۲۵۰‘ والإرواء‘ رقم:۸۹۶‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد‘ رقم:۲۳۴۰) 2. ا س حدیث میں ایک زریں اصول بیان ہوا ہے۔
وہ یہ کہ نہ کسی کو ضرر پہنچاؤ اور نہ ضرر کا خود شکار بنو۔
گویا کسی کو بلاوجہ ضرر و اذیت میں مبتلا کرنا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں۔
جب کسی کو خود تکلیف دے گا تو ظاہر ہے مخالف بھی اسے اذیت دینے کی کوشش کرے گا تو اس نے گویا ازخود اپنے آپ کو اذیت اور ضرر رسانی کا نشانہ و ہدف بنایا۔
3. یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ حدود الٰہیہ کا نفاذ و اجر ا اس حدیث کے ضمن میں نہیں آتا‘ اس لیے کہ وہ امر الٰہی کی تعمیل ہے نہ کہ اپنے وہم و گمان کی پیروی۔