جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اناج کو بیچنے سے منع کیا ہے جب تک اس میں بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کے صاع نہ چلیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2228]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2941، ومصباح الزجاجة: 782) (حسن) (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے)»
وضاحت: ۱؎: بیچنے والے اور خریدنے والے کے صاع (یعنی پیمانہ) چلنے کا مطلب یہ ہے کہ بیچنے والے نے خریدتے وقت اپنے صاع سے اس کو ماپا، اور خریدنے والا جب خریدے تو اس وقت ماپے، جب ماپ لے تو اب دوسرے کے ہاتھ بیچ سکتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد بن أبي ليلي: ضعيف وأبو الزبير عنعن وللحديث شاھد عند البيھقي (5/ 316) من حديث أبي ھريرة رضي اللّٰه عنه،فيه ھشام بن حسان مدلس (د 443) ولم أجد تصريح سماعه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 458
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2228
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جب کوئی شخص غلہ وغیرہ خریدے تو اسے چاہیے کہ اسے وہاں سے اٹھا لے، پھر دوسری جگہ جا کر فروخت کرے۔
(2) بعض لوگ سودے پر سودا کرتے چلے جاتے ہیں، اور نفع لے لیتے ہیں جب کہ سامان سٹور میں پڑا ہوتا ہے اسے دیکھتے بھی نہیں کہ یہ کتنی قیمت کا ہے، درست ہے یا خراب ہے اس کا جتنا وزن بتایا جا رہا ہے پورا ہے یا نہیں۔ اس کا نقصان آخر میں خریدنے والے کو ہوتا ہے جو اسے اپنے استعمال کے لیے خریدتے ہے، اور اس وجہ سے جھگڑے ہوتے ہیں۔
(3) بغیر دیکھے خرید وفروخت کی صورت میں ایسے لوگ خریدتے ہیں جنہیں ضرورت نہیں ہوتی۔ اور وہ بغیر محنت کے نفع لے لیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ چیز صارفین تک مہنگی ہو کر پہنچتی ہے۔ اور مال کے مالک (کسان) کو بہت کم قیمت ملتی ہے۔
(4) دو پیمانوں سے ماپنے کا مطلب ہے کہ پہلے ماپ کر خریدا جائے، پھر بیچتے وقت دوبارہ ماپ کر خریدار کے حوالے کیا جائے۔ تولنے والی چیز کو اسی طرح دوبارہ تولا جانا چاہیے، اور گنی جانے والی چیز بھی گن کر وصول کی جائے اور پھر بیچتے وقت گن کر گاہک کے حوالے کی جائے تاکہ کسی مقام پر کسی سے دھوکا نہ ہو۔
(5) مال چیک کرکے خریدنے او رچیک کرا کے فروخت کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ مال کی اصل کیفیت خریدار کے سامنے آ جاتی ہے۔ اس کا معیار یا عیب وغیرہ سامنے آ جاتا ہے جس سے ہر شخص کو اس کی جائز قیمت ملتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2228