محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال اور حرام میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں دف بجایا جائے، اور اس کا اعلان کیا جائے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1896]
وضاحت: ۱؎: تاکہ سب لوگوں کو خبر ہو جائے کہ یہاں نکاح ہوا ہے، اب علماء کا اختلاف ہے کہ سوائے دف کے اور باجے بھی درست ہیں یا نہیں؟ جیسے طبلے سارنگی وغیرہ بعضوں نے دف کے سوا دوسرے سارے باجوں کو ناجائز رکھا ہے اور بعضوں نے شادی اور عید میں جائز رکھا ہے، اور وقتوں میں جائز نہیں رکھا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1896
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ازدواجی تعلقات قائم کرنے کا شرعی طریقہ نکاح کا ہے۔ اس میں عام لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں کا فلاں سے نکاح ہوا ہے جب کہ ناجائز تعلقات خفیہ طور پر قائم کیے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ لوگوں کو ان تعلقات کا علم نہ ہونے پائے۔ نکاح میں گواہ مقرر کرنے کا یہی مقصد ہے۔
(2) شادی کے موقع پر دف بجانے کا بھی یہی مقصد ہے کہ سب لوگوں کو شادی کا علم ہو جائے۔ اس موقع پر گیت وغیرہ بھی گائے جا سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے الفاظ شریعت کی تعلیمات کے منافی نہ ہوں۔ اور گانے والیاں نابالغ بچیاں ہوں۔ خوشی کے اسی انداز سے اظہار عید کے ایام میں بھی جائز ہے۔
(3) دف ڈھول سے ملتی جلتی ایک چیز ہے۔ جس میں صرف ایک طرف چمڑا لگا ہوتا ہے جبکہ ڈھول میں دونوں طرف چمڑا لگا ہوتا ہے، اس لیے دف کی آواز اتنی زیادہ بلند اور خوش کن نہیں ہوتی۔
(4) بعض لوگ دف کے جواز سے ہر قسم کے راگ رنگ کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ استدلال درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دف کی اجازت دینے کے باوجود خود اس میں دلچسپی نہیں لی۔ (صحیح البخاري، العیدین، باب الحراب والدرق یوم العید، حدیث: 949)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1896
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3371
´دف بجا کر اور بلند آواز سے نکاح کا اعلان۔` محمد بن حاطب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال اور حرام میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں دف بجایا جائے اور اس کا اعلان کیا جائے ۱؎۔“[سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3371]
اردو حاشہ: حدیث کا مقصد یہ ہے کہ نکاح خفیہ نہ کیا جائے بلکہ اعلانیہ ہو۔ نکاح کے موقع پر بارات کا آنا‘ نکاح کا اجتماع میں ہونا اور نکاح کے گواہوں کا موجود ہونا بھی نکاح کو اعلانیہ بنا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نکاح خوشی کا موقع بھی ہے اور خوشی کے وقت بچے اس موقع کی مناسبت سے شادی بیاہ کے گیت گانے اور دف سے خصوصی شغف رکھتے ہیں‘ لہٰذا بچوں کو ایسے موقع پر اس کی اجازت دی جائے کہ وہ دف بجائی اور قومی گانے گائیں تاکہ نکاح کا اچھی طرح چرچا ہوجائے‘ البتہ یہ ضروری ہے کہ گانے بجانے والے بچے بچیاں ہوں نہ کہ پیشہ ورگانے بجانے والے مدعو کیے جائیں۔ بالغ افراد (مرد ہوں یاعورت) کے لیے گانا بجانا منع ہے۔ دف کے علاوہ دیگر آلات موسیقی کا استعمال حرام ہے۔ دف انتہائی سادہ آلہ ہے۔ آواز بھی ہلکی اور سادہ ہوتی ہے‘ لہٰذا اس کی اجازت ہے۔ ڈھول وغیرہ حرام ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3371
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3372
´دف بجا کر اور بلند آواز سے نکاح کا اعلان۔` محمد بن حاطب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال و حرام (نکاح) میں تمیز پیدا کرنے والی چیز آواز ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3372]
اردو حاشہ: آواز سے مراد نکاح کا اعلان یا گیت اور دف کی آواز ہے۔ چونکہ خاوند‘ بیوی نے باقی ساری زندگی اکٹھے گزارنی ہے‘ لہٰذا کم از کم محلے والے سب لوگوں کو پتہ چل جانا چاہیے کہ فلاں کا فلاں سے نکاح ہوا ہے تاکہ بعد میں آنے جانے پر کسی کو اعتراض نہ ہو بلکہ رشتے کی محبت پیدا ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3372
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1088
´نکاح کے اعلان کا بیان۔` محمد بن حاطب جمحی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حرام اور حلال (نکاح) کے درمیان فرق صرف دف بجانے اور اعلان کرنے کا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1088]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ نکاح اعلانیہ کیا جاناچاہئے، خفیہ طورپر چوری چھپے نہیں، اس لیے کہ اعلانیہ نکاح کرنے پرکسی کو میاں بیوی کے تعلقات پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔ عموماً یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ غلط نکاح ہی چھپ کر کیا جاتاہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1088