´نماز عیدین کا بیان`
سیدنا ابو عمیر بن انس رحمہ اللہ نے اپنے ایک چچا صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ چند سوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور انہوں نے شہادت دی کہ انہوں نے کل شام چاند دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا کہ ”روزہ افطار کر دو اور کل صبح نماز عید کے لئے عید گاہ میں آ جاؤ۔“
اسے احمد، ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں اور اس کی سند صحیح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 386»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب إذا لم يخرج الإمام للعيد من يومه، حديث:1157، وأحمد:5 /57، 58، وابن ماجه، الصيام، حديث:1653، والنسائي، صلاة العيدين، حديث:1558.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ۲۹ رمضان کو ایسی جگہ چاند نظر آجائے جہاں کا مطلع مختلف نہ ہو تو دوسرے روز صحیح اور قابل اعتبار ذرائع سے اطلاع ملنے پر روزہ اسی وقت افطار کر دیا جائے گا۔
2.اگر قبل از زوال خبر ملی تو اسی روز نماز عید بھی ادا کر لی جائے ورنہ دوسرے روز عید کی نماز ادا کی جائے گی۔
3.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھنی چاہیے اور اجتماعی طور پر پڑھنی چاہیے۔
4. اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ چاند کی رؤیت کا اعلان سرکاری طور پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
5.اعلان جانی پہچانی شخصیت کے توسط سے کیا جانا چاہیے۔
6. عصر حاضر میں قابل اعتماد شہادتوں کے بعد ریڈیو‘ ٹی وی سے اعلان کیا جاسکتا ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت ابوعمیر بن انس رحمہ اللہ» ان کا نام عبداللہ بن مالک انصاری تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑے تھے۔
صغار تابعین میں شمار ہوتے ہیں‘ ثقہ تھے۔
چوتھے طبقے کے راوی ہیں۔
اپنے باپ کے بعد کافی دیر زندہ رہے۔