ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ میں تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کو (روتے) دیکھا تو اس پر چلائے، یہ دیکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! اسے چھوڑ دو، اس لیے کہ آنکھ رونے والی ہے، جان مصیبت میں ہے، اور (صدمہ کا) زمانہ قریب ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1587]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الجنائز 16 (1860)، (تحفة الأشراف: 13475)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/110، 273، 333، 408، 444) (ضعیف)» (کیونکہ اس کی سند میں محمد بن عمرو بن عطاء اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، جیسا کہ بعد والی حدیث کی سند سے واضح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 3603)
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے ابھی صدمہ پہنچا ہے اور ایسے وقت میں دل پر اثر بہت ہوتا ہے اور رونا بہت آتا ہے، آدمی مجبور ہو جاتا ہے خصوصاً عورتیں جن کا دل بہت کمزور ہوتا ہے، ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ عورت آواز کے ساتھ روئی ہو گی، لیکن بلند آواز سے نہیں، تب بھی عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو منع کیا تاکہ نوحہ کا دروازہ بند کیا جا سکے جو منع ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے بیٹے ابراہیم کی موت پر روئے اور فرمایا: ” آنکھ آنسو بہاتی ہے، اور دل رنج کرتا ہے، لیکن زبان سے ہم وہ نہیں کہتے جس سے ہمارا رب ناراض ہو “ اور امام احمد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی زینب وفات پا گئیں تو عورتیں رونے لگیں، عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کو کوڑے سے مارنے لگے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ان کو پیچھے ہٹا دیا، اور فرمایا: ” عمر ٹھہر جاؤ! “ پھر فرمایا: ” عورتو! تم شیطان کی آواز سے بچو … “ اخیر حدیث تک۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (1860) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 435