اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیٹی کا ایک لڑکا مرنے کے قریب تھا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب میں کہلا بھیجا: ”جو لے لیا وہ اللہ ہی کا ہے، اور جو دے دیا وہ بھی اللہ ہی کا ہے، اور اس کے پاس ہر چیز کا ایک مقرر وقت ہے، انہیں چاہیئے کہ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں“ لڑکی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ بلا بھیجا، اور قسم دلائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور تشریف لائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، آپ کے ساتھ میں بھی اٹھا، آپ کے ساتھ معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بھی تھے، جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو لوگ بچے کو لے آئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا، بچے کی جان اس کے سینے میں اتھل پتھل ہو رہی تھی، (راوی نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں یہ بھی کہا:) گویا وہ پرانی مشک ہے (اور اس میں پانی ہل رہا ہے): یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے، عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم دل بندوں ہی پر رحم کرتا ہے ۱؎“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1588]
وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ رونا اور رنج کرنا خلاف شرع نہیں ہے بلکہ یہ دل کے نرم اور مزاج کے معتدل ہونے کی نشانی ہے، اور جس کسی کو ایسے موقعوں پر رنج بھی نہ ہو اس کا دل اعتدال سے باہر ہے اور وہ سخت دل ہے، اور یہ کچھ تعریف کی بات نہیں ہے کہ فلاں بزرگ اپنے بیٹے کے مرنے سے ہنسنے لگے، واضح رہے کہ عمدہ اور افضل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1588
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مصیبت کے وقت صبر اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے۔
(2) انسان کو مصیبت کے وقت یہ سوچنا چاہیے۔ کہ جو کچھ اللہ نے ہم سے لیا ہے۔ وہ ہمارا نہیں تھا بلکہ اللہ ہی کا تھا لہٰذا ہم نے اللہ کی امانت واپس کی ہے۔
(3) یہ اللہ کا احسان ہے کہ وہ اپنی امانت ایک مدت تک ہمارے پاس رہنے دیتا ہے۔ اور ہم اس سے فائدہ اُٹھاتے اور دل خوش کرتے ہیں۔ اور جب وہ اپنی امانت واپس لیتا ہے۔ تو پھر صبر کرنے پر بھی ہمیں اجر وثواب عطا فرماتا ہے۔ یہ بھی اس کا ایک احسان ہے۔
(4) دل کا غم اور آنکھوں سے آنسو بہنا صبر کے منافی نہیں۔
(5) کسی کو قسم دے کر کوئی مطالبہ کرنا جائز ہے۔
(6) جس کام کے لئے قسم دی جائے اگر وہ شرعا ممنوع نہ ہو تو اسے پورا کرنا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔
(7) غم کا موقع ہو یا خوشی کا اگر مسئلہ پوچھا جائے تو وضاحت کردینی چاہیے۔
(8) اپنى یا کسی کی مصیبت پر غمگین ہونا نرم دلی کی علامت ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔
(9) اللہ کی مخلوق پر رحمت وشفقت کرنے سے بندے کواللہ کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔
(10) وفات کے وقت تمام رشتے داروں کا حاضر ہونا ضروری نہیں تاہم گھر والوں کی یہ خواہش جائز ہے کہ ایسے وقت میں نیک لوگ قریب ہوں تاکہ ان کی دعا اور برکت سے جان کنی کا مرحلہ آسانی سے طے ہوجائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1588
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3125
´میت پر رونا۔` اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو یہ پیغام دے کر بلا بھیجا کہ میرے بیٹے یا بیٹی کے موت کا وقت قریب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اس وقت میں اور سعد اور میرا خیال ہے کہ ابی بھی آپ کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواباً) سلام کہلا بھیجا، اور فرمایا: ”ان سے (جا کر) کہو کہ اللہ ہی کے لیے ہے جو چیز کہ وہ لے، اور اسی کی ہے جو چیز کہ وہ دے، ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔“ پھر زینب رضی اللہ عنہا نے دوبارہ بلا بھیجا اور قسم دے کر کہلایا کہ آپ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ صلی ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3125]
فوائد ومسائل: 1۔ میت پر فرط غم سے آنکھوں سے آنسووں کا نکل آنا۔ ایک فطری امر ہے۔ اس لئے یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ بلکہ یہ دل کی نرمی اور رحم دلی کی علامت ہے۔
2۔ جس شخص کا دل سخت ہو۔ ایسے موقعوں پر فطری طور پر جو غم ہوتا ہے۔ اس کا جائز بھی جائز طور پر اظہار نہ ہو تو یہ سنگ دلی ہے۔ جو ممدوح نہیں ہے۔ یہ کیفیت قابل علاج ہے۔ اور اس کا علاج ہے موت کو کثرت سے یاد کرنا۔ قبرستان کی زیارت اور یتیم کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنا۔ ان اعمال کو بجالانے سے دل کی سختی نرمی سے بدل سکتی ہے۔
3۔ کہیں قریب میں بھی کوئی پیغام لینا دینا ہو تو حسن ادب یہ ہے کہ پہلے سلام کہلایا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3125
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7448
7448. سیدنا اسامہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی ایک صاحبزادی کا بیٹا فوت ہو رہا تھا تو انہوں نے آپ ﷺ کو تشریف کانے کے لیے پیغام بھیجا۔ آپ ﷺ نے جواب بھیجا۔ اللہ ہی کا تھا جو اس نے لے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دیا اور ہر شے ایک مقرر حد تک کے لیے ہے۔ انہیں چاہیے کہ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں۔ صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اٹھے اور میں بھی آپ کے ساتھ چلا۔ سیدنا معاذ بن جبل، سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا عبادہ بن صامت ؓ بھی ساتھ روانہ ہوئے۔ جب ہم صاحبزادی کے گھر داخل ہوئے تو اہل خانہ نے بچے کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ وہ پرانی مشک کی طرح تھا، رسول اللہ ﷺ بچے کی حالت دیکھ کر رو پڑے۔ سیدنا سعد بن عبادہ ؓ نے کہا: آپ رو رہے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بس اللہ تعالیٰ رحم کرتا ہے اپنے رحم کرنے والے بندوں پر۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7448]
حدیث حاشیہ: دوسری روایت میں ہےکہ یہ رحم اللہ نےاپنے بندوں کےدلوں میں ڈالا ہے۔ ایسے لوگوں کےلیے مصیبت زدہ لوگوں کو دیکھ کر دل میں رنج ہونا ایک فطری بات ہے الراحمون یرحمھم الرحمن صدق رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7448
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1284
1284. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا فوت ہورہا ہے، آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ آپ نے سلام کہتے ہوئے واپس پیغام بھیجا اور فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے) جواللہ نے لے لیا وہ اس کا تھا اور جو اس نے عطا کیا وہ بھی اسی کا ہے۔ اس کے ہاں ہر چیز کاوقت مقرر ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ صبر کرے اور ثواب کی طلب گار رہے۔“ صاحبزادی نے پھر پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور مزید چندلوگ تھے۔ بچے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا جبکہ اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا۔ راوی نے کہا:میرا گمان ہے کہ اس نے کہا:گویا وہ مشکیزہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دونوں آنکھیں (یہ منظر دیکھ کر) بہنے لگیں توحضرت سعد ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1284]
حدیث حاشیہ: اس مسئلہ میں ابن عمر اور عائشہ ؓ کا ایک مشہور اختلاف تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کی وجہ سے عذاب ہوگا یا نہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس باب میں اسی اختلاف پر یہ طویل محاکمہ کیا ہے۔ اس سے متعلق مصنف ؒ متعدد احادیث ذکر کریں گے اور ایک طویل حدیث میں جو اس باب میں آئے گی۔ دونوں کی اس سلسلے میں اختلاف کی تفصیل بھی موجود ہے۔ عائشہ ؓ کا خیال یہ تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب نہیں ہوتا، کیونکہ ہر شخص صرف اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ قرآن میں خود ہے کہ کسی پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں ﴿لاَ تَزِرُ وَازِرَة وِّزرَ اُخرٰی﴾(الأنعام: 164) اس لیے نوحہ کی وجہ سے جس گناہ کے مرتکب مردہ کے گھروالے ہوتے ہیں، اس کی ذمہ داری مردے پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟ لیکن ابن عمر ؓ کے پیش نظریہ حدیث تھی ”میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب ہوتا ہے۔ “ حدیث صاف تھی اور خاص میت کے لیے لیکن قرآن میں ایک عام حکم بیان ہوا ہے۔ عائشہ ؓ کا جواب یہ تھا کہ ابن عمر سے غلطی ہوئی، آنحضور ﷺ کا ارشاد ایک خاص واقعہ سے متعلق تھا۔ کسی یہودی عورت کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس پر اصل عذاب کفر کی وجہ سے ہورہا تھا، لیکن مزید اضافہ گھر والوں کے نوحہ نے بھی کردیا تھا کہ وہ اس کے استحاق کے خلاف اس کا ماتم کررہے تھے اور خلاف واقعہ نیکیوں کو اس کی طرف منسوب کر رہے تھے۔ اس لیے حضور ﷺ نے اس موقع پر جو کچھ فرمایا وہ مسلمانوں کے بارے میں نہیں تھا۔ لیکن علماء نے حضرت ابن عمر ؓ کے خلاف حضرت عائشہ کے اس استدلال کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف ابن عمر ؓ کی حدیث کو بھی ہر حال میں نافذ نہیں کیا بلکہ اس کی نوک پلک دوسرے شرعی اصول وشواہد کی روشنی میں درست کئے گئے ہیں اور پھر اسے ایک اصول کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے۔ علماء نے اس حدیث کی جو مختلف وجوہ و تفصیلات بیان کی ہیں، انہیں حافظ ابن حجر ؒ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس پر امام بخاری ؒ کے محاکمہ کا حاصل یہ ہے کہ شریعت کا ایک اصول ہے۔ حدیث میں ہے: کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیته۔ ہر شخص نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں سے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ یہ حدیث متعدد اور مختلف روایتوں سے کتب احادیث اور خود بخاری میں موجود ہے۔ یہ ایک مفصل حدیث ہے اور اس میں تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ بادشاہ سے لے کر ایک معمولی سے معمولی خادم تک راعی اور نگراں کی حیثیت رکھتا ہے اور ان سب سے ان کی رعیتوں کے متعلق سوال ہو گا۔ یہاں صاحب تفہیم البخاری نے ایک فاضلانہ بیان لکھا ہے جسے ہم شکریہ کے ساتھ ”تشریح“ میں نقل کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ ﴿قُوا أنفسَکُم وأهلِيکُم ناراً﴾(التحریم: 6) خود کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ امام بخاری ؒ نے اس موقع پر واضح کیا ہے کہ جس طرح اپنی اصلاح کا حکم شریعت نے دیا ہے، اسی طرح اپنی رعیت کی اصلاح کا بھی حکم ہے، اس لیے ان میں سے کسی ایک کی اصلاح سے غفلت تباہ کن ہے۔ اب اگر مردے کے گھر غیر شرعی نوحہ وماتم کا رواج تھا، لیکن اپنی زندگی میں اس نے انہیں اس سے نہیں روکا اور اپنے گھر میں ہونے والے اس منکر پر واقفیت کے باوجود اس نے تساہل سے کام لیا تو شریعت کی نظر میں وہ بھی مجرم ہے۔ شریعت نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک اصول بنادیا تھا۔ ضروری تھا کہ اس اصول کے تحت اپنی زندگی میں اپنے گھر والوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کیا، تو گویا وہ خود اس عمل کا سبب بنا ہے۔ شریعت کی نظر اس سلسلے میں بہت دور تک ہے۔ اسی محاکمہ میں امام بخاری ؒ نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ ”کوئی شخص اگر ظلماً (ظالمانہ طور پر) قتل کیا جاتا ہے تو اس قتل کی ایک حد تک ذمہ داری آدم ؑ کے سب سے پہلے بیٹے (قابیل) پر عائد ہوتی ہے۔ “ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا تھا۔ یہ روئے زمین پر سب سے پہلا ظالمانہ قتل تھا۔ اس سے پہلے دنیا اس سے ناواقف تھی۔ اب چونکہ اس طریقہ ظلم کی ایجاد سب سے پہلے آدم ؑ کے بیٹے قابیل نے کی تھی، اس لیے قیامت تک ہونے والے ظالمانہ قتل کے گناہ کا ایک حصہ اس کے نام بھی لکھا جائے گا۔ شریعت کے اس اصول کو اگر سامنے رکھا جائے تو عذاب وثواب کی بہت سی بنیادی گر ہیں کھل جائیں۔ حضرت عائشہ ؓ کے بیان کردہ اصول پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ قرآن نے خود فیصلہ کردیا ہے کہ ”کسی انسان پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ “ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا تھا کہ مرنے والے کو کیا اختیار ہے؟ اس کا تعلق اب اس عالم ناسوت سے ختم ہوچکا ہے۔ نہ وہ کسی کو روک سکتا ہے اور نہ اس پر قدرت ہے۔ پھر اس ناکردہ گناہ کی ذمہ داری اس پر عائد کرنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ اس موقع پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شریعت نے ہر چیز کے لیے اگرچہ ضابطے اور قاعدے متعین کردئیے ہیں، لیکن بعض اوقات کسی ایک میں بہت سے اصول بیک وقت جمع ہوجاتے ہیں اور یہیں سے اجتہاد کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جزئی کس ضابطے کے تحت آ سکتی ہے؟ اور ان مختلف اصول میں اپنے مضمرات کے اعتبار سے جزئی کس اصول سے زیادہ قریب ہے؟ اس مسئلہ میں حضرت عائشہ ؓ نے اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میت پر نوحہ وماتم کا میت سے تعلق قرآن کے بیان کردہ اس اصول سے متعلق ہے کہ ”کسی انسان پر دوسرے کی ذمہ داری نہیں۔ “ جیسا کہ ہم نے تفصیل سے بتایا کہ عائشہ ؓ کے اجتہاد کو امت نے اس مسئلہ میں قبول نہیں کیا ہے۔ اس باب پر ہم نے یہ طویل نوٹ اس لیے لکھا کہ اس میں روز مرہ زندگی سے متعلق بعض بنیادی اصول سامنے آئے تھے۔ جہاں تک نوحہ وماتم کا سوال ہے اسے اسلام ان غیر ضروری اور لغو حرکتوں کی وجہ سے رد کرتا ہے جو اس سلسلے میں کی جاتی تھیں۔ ورنہ عزیز وقریب یا کسی بھی متعلق کی موت پر غم قدرتی چیز ہے اور اسلام نہ صرف اس کے اظہار کی اجازت دیتا ہے، بلکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض افراد کو جن کے دل میں اپنے عزیز وقریب کی موت سے کوئی ٹیس نہیں لگی، آنحضورﷺ نے انہیں سخت دل کہا۔ خود حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جب آپ ﷺ کے کسی عزیز وقریب کی وفات پر آپ ﷺ کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ (تفہیم البخاری) نصوص شرعیہ کی موجودگی میں ان کے خلاف اجتہاد قابل قبول نہیں ہے۔ خواہ اجتہاد کرنے والا کوئی ہو۔ رائے اور قیاس ہی وہ بیماریاں ہیں جنہوں نے امت کا بیڑہ غرق کر دیا اور امت تقسیم درتقسیم ہوکر رہ گئی۔ حضرت امام بخاری ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کے قول کی مناسب توجیہ فرمادی ہے، وہی ٹھیک ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1284
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1284
1284. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا فوت ہورہا ہے، آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ آپ نے سلام کہتے ہوئے واپس پیغام بھیجا اور فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے) جواللہ نے لے لیا وہ اس کا تھا اور جو اس نے عطا کیا وہ بھی اسی کا ہے۔ اس کے ہاں ہر چیز کاوقت مقرر ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ صبر کرے اور ثواب کی طلب گار رہے۔“ صاحبزادی نے پھر پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور مزید چندلوگ تھے۔ بچے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا جبکہ اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا۔ راوی نے کہا:میرا گمان ہے کہ اس نے کہا:گویا وہ مشکیزہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دونوں آنکھیں (یہ منظر دیکھ کر) بہنے لگیں توحضرت سعد ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1284]
حدیث حاشیہ: (1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث میں مذکور ابن سے مراد علی بن ابی العاص ؓ ہو سکتے ہیں جو حضرت زینب ؓ کے بطن سے تھے، لیکن مذکورہ حدیث کے کسی طریق میں ان کا ذکر نہیں ہوا۔ یا اس سے مراد عبداللہ بن عثمان ؓ بھی ہو سکتے ہیں جو حضرت رقیہ کے بطن سے تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنی گود میں اٹھایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرتا ہے جنہیں دوسروں پر رحم کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد حضرت محسن بن علی ؓ ہوں جنہیں حضرت فاطمہ ؓ نے جنم دیا تھا۔ اہل علم کا اتفاق ہے کہ وہ صغر سنی ہی میں فوت ہو گئے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ بھی بقید حیات تھے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجنے والی حضرت زینب ؓ کے علاوہ کوئی دوسری لخت جگر ہو۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ حضرت زینب ؓ ہی تھیں اور وہ بچہ لڑکا نہیں بلکہ لڑکی تھی، جیسا کہ مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف حضرت امام بنت زینب کو لایا گیا۔ اور یہ بھی ایک روایت میں ہے کہ وہ حضرت ابو العاص ؓ کی دختر تھیں۔ اس وقت ان کا سانس اکھڑا ہوا تھا، جیسا کہ رکھے ہوئے مشکیزے میں کوئی چیز بولتی ہو۔ بعض روایات میں امیمہ کا لفظ آیا ہے۔ وہ بھی امامہ مذکورہ ہی ہیں، کیونکہ علمائے انساب کا اتفاق ہے کہ حضرت زینب ؓ کے بطن سے حضرت ابو العاص کے دو ہی بچے تھے۔ ایک علی اور دوسری حضرت امامہ۔ لیکن اس میں اشکال یہ ہے کہ علمائے تاریخ کا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ حضرت امامہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد تک زندہ رہیں یہاں تک کہ حضرت فاطمہ ؓ کے بعد حضرت علی ؓ سے ان کا نکاح بھی ہوا اور حضرت على کی شہادت تک وہ ان کے ساتھ رہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کافی عمر تھی۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ حضرت زینب نے جو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا تھا کہ بچہ حالت نزع میں ہے اور اس کی روح قبض ہو رہی ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ قریب الموت ہے، کیونکہ روایت حماد میں ہے کہ بچہ موت کی حالت میں ہے۔ روایت شعبہ کے الفاظ یہ ہیں کہ میری بیٹی کا وقت مرگ آ پہنچا ہے۔ سنن ابی داود میں بیٹا یا بیٹی تردد کے ساتھ ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ وہ لڑکی تھی، لڑکا نہ تھا۔ اس کی تائید طبرانی کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت امامہ بنت ابی العاص ؓ کا مرض شدید ہوا اور وہ قریب المرگ ہو گئیں تو حضرت زینب نے اپنے والد گرامی رسول اللہ ﷺ کو بلوایا اور آپ بھی اسے حالت نزع میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے جس پر حضرت سعد ؓ نے سوال کیا، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعے میں رسول اللہ ﷺ سے انتہائی اکرام کا معاملہ کیا ہے کہ اس وقت آپ کی تسلیم و رضا کی شان اور انتہائی رحمت و شفقت سے مجبور ہو کر آبدیدہ ہونے اور صاجزادی کے صبر و استقلال پر نظر فرما کر آپ کی نواسی کو کامل صحت و شفا عطا فرمائی اور بعد ازاں وہ طویل عرصے تک زندہ رہیں۔ آخر میں حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس عجیب و غریب معجزانہ واقعے کو رسول اللہ ﷺ کے معجزات میں بیان کرنا چاہیے تھا۔ (فتح الباري: 200/3)(2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ نوحے کے بغیر رونے کی اجازت ہے، جیسا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کے آبدیدہ ہونے کا ذکر ہے۔ بے ساختہ رونے پر نہ تو میت کو عذاب ہو گا اور نہ رونے والے ہی سے مؤاخذہ کیا جائے گا بلکہ اسے رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی رحمت قرار دیا ہے۔ والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1284
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7448
7448. سیدنا اسامہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی ایک صاحبزادی کا بیٹا فوت ہو رہا تھا تو انہوں نے آپ ﷺ کو تشریف کانے کے لیے پیغام بھیجا۔ آپ ﷺ نے جواب بھیجا۔ اللہ ہی کا تھا جو اس نے لے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دیا اور ہر شے ایک مقرر حد تک کے لیے ہے۔ انہیں چاہیے کہ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں۔ صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اٹھے اور میں بھی آپ کے ساتھ چلا۔ سیدنا معاذ بن جبل، سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا عبادہ بن صامت ؓ بھی ساتھ روانہ ہوئے۔ جب ہم صاحبزادی کے گھر داخل ہوئے تو اہل خانہ نے بچے کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ وہ پرانی مشک کی طرح تھا، رسول اللہ ﷺ بچے کی حالت دیکھ کر رو پڑے۔ سیدنا سعد بن عبادہ ؓ نے کہا: آپ رو رہے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بس اللہ تعالیٰ رحم کرتا ہے اپنے رحم کرنے والے بندوں پر۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7448]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس امر کو بیان کرنا ہے کہ بعض اوقات رحمت کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے اور یہ اس رحمت کا نتیجہ ہوتا ہے جو رحمت صفت باری تعالیٰ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عباد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا۔ "یہ اللہ تعالیٰ کی وہ رحمت ہے جسے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے انھی بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں۔ "(صحیح البخاری: التوحید حدیث: 7377) اگرچہ مذکورالفاظ پیش کردہ حدیث میں نہیں تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حسب عادت اس حدیث کی طرف مذکورہ حدیث سے اشارہ کیا ہے۔ بلا شبہ رحمت الٰہی مخلوق بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا نتیجہ ہوتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔ "وہی تو ہے جس نے اپنی رحمت(بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری دینے والی بنا کر بھیجا۔ "(الفرقان 25۔ 48) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔ "اللہ تعالیٰ نے ایک سورحمت پیدا کی ہے صرف ایک رحمت کو اپنی مخلوق میں رکھا باقی ننانوے (99) رحمتیں اپنے پاس محفوظ رکھی ہیں۔ "(صحیح مسلم التوبہ حدیث: 6973(2752) 2۔ حدیث میں جنت کو بھی رحمت سے تعبیر کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے وہ جنت اہل ایمان سے بہت قریب ہے۔ جنت اور ان کے درمیان صرف موت حائل ہے۔ جونہی ان کی ارواح اجسام سے پرواز کریں گی ان کا مقام اور ٹھکانا جنت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو جنت الفردوس اور جنت عدن نصیب کرے آمین رب العالمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7448