الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الحميدي
بَابُ الْجَنَائِزِ
جنائز کے بارے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
5. حدیث نمبر 1054
حدیث نمبر: 1054
1054 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ مَنْ سَمِعَ، أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ صَوْتَ بَاكِيَةٍ، فَنَهَاهَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعْهَا يَا أَبَا حَفْصٍ، فَإِنَّ الْعَهْدَ قَرِيبٌ، وَالْعَيْنَ بَاكِيَةٌ، وَالنَّفْسَ مُصَابَةٌ»
1054- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک خاتون کے رونے کی آواز سنی تو اسے منع کیا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے ابوحفص! اسے چھوڑدو، کیونکہ مصیبت لاحق ہونے کا زمانہ قریب ہے، آنکھ رورہی ہے اور جان کو تکلیف لاحق ہے۔

[مسند الحميدي/بَابُ الْجَنَائِزِ/حدیث: 1054]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، ولكنه الحديث حسن، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3157، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1410، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1858، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1998، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1587، 1587 م، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7259، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5995، 7806، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6405»

   سنن النسائى الصغرىالعين دامعة والقلب مصاب والعهد قريب
   سنن ابن ماجهالعين دامعة والنفس مصابة والعهد قريب
   مسندالحميديدعها يا أبا حفص، فإن العهد قريب، والعين باكية، والنفس مصابة

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1054 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1054  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ میت پر صرف رونا گناہ نہیں ہے، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کے دل نرم ہوتے ہیں، اور اگر وہ صرف رو رہی ہوں اور واویلا نہ کریں تو ان کو روکنا نہیں چاہیے، ہاں اگر وہ چیخ و پکار اور حرام امور کا ارتکاب کریں تو ان کو روک دینا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1053   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1860  
´میت پر رونے کی رخصت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں کسی کا انتقال ہو گیا تو عورتیں اکٹھا ہوئیں (اور) میت پر رونے لگیں، تو عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر انہیں روکنے اور بھگانے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! انہیں چھوڑ دو کیونکہ آنکھوں میں آنسو ہے، دل غم میں ڈوبا ہوا ہے، اور موت کا وقت قریب ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1860]
1860۔ اردو حاشیہ: فائدہ: مذکو ر کو رہ روایت سند ا ضعیف ہے لیکن حدیث میں مذکور مسئلہ دیگر صحیح شواہد کی بنا پر صحیح ہے کہ صدمے کی وجہ سے فطری طور پر جو رونا ا ٓجاتا ہے، وہ جائز ہے، وہ ممنو ع ررونے کی قسم میں نہیں ا ٓتا۔ علامہ اتیو بی نے مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے اس کے شواہد کا تذ رہ کیا ہے اور بہت ہی نفیس بحث کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: (ذخيرة العقبيٰ شرح سنن النسائی: 18/314۔ 320]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1860