ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مسجد چھپر کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک تنے کی طرف نماز پڑھتے تھے، اور اسی تنے پر ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے کہا: کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم آپ کے لیے کوئی ایسی چیز بنائیں جس پر آپ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دیں تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں، اور آپ انہیں اپنا خطبہ سنا سکیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ پھر اس شخص نے تین سیڑھیاں بنائیں، یہی منبر کی اونچائی ہے، جب منبر تیار ہو گیا، تو لوگوں نے اسے اس مقام پہ رکھا جہاں اب ہے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہونے کا ارادہ کیا، تو اس تنے کے پاس سے گزرے جس کے سہارے آپ خطبہ دیا کرتے تھے، جب آپ تنے سے آگے بڑھ گئے تو وہ رونے لگا، یہاں تک کہ پھوٹ پھوٹ کر رویا، اس وقت آپ منبر سے اترے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرا، تب وہ خاموش ہوا، ۱؎ پھر آپ منبر پہ لوٹے، جب آپ نماز پڑھتے تھے تو اسی تنے کی جانب پڑھتے تھے، پھر جب (عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تعمیر نو کے لیے) مسجد ڈھائی گئی، اور اس کی لکڑیاں بدل دی گئیں، تو اس تنے کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لے لیا، اور وہ ان کے گھر ہی میں رہا یہاں تک کہ پرانا ہو گیا، پھر اسے دیمک کھا گئی، اور وہ گل کر ریزہ ریزہ ہو گیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1414]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 34، ومصباح الزجاجة: 499)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/137)، سنن الدارمی/المقدمة 6 (36) (حسن)» (کھجور کے تنے کی گریہ وزاری سے متعلق کئی احادیث ہیں، جب کہ بعض اس بارے میں ہیں، نیز تفصیل کے لئے دیکھئے فتح الباری 6؍603)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مشہور معجزہ مذکور ہے، یعنی لکڑی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم میں رونا، نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز میں نفس اور جان ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ جس کو چاہے قوت گویائی عطا کر دے، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو کہ منبر نبوی کی تین سیڑھیاں تھیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن عقيل: ضعيف ولأصل الحديث شواهد انوار الصحيفه، صفحه نمبر 427
يصلي إلى جذع إذ كان المسجد عريشا وكان يخطب إلى ذلك الجذع فقال رجل من أصحابه هل لك أن نجعل لك شيئا تقوم عليه يوم الجمعة حتى يراك الناس وتسمعهم خطبتك قال نعم فصنع له ثلاث درجات فهي التي أعلى المنبر فلما وضع المنبر وضعوه في موضعه الذي هو فيه فلما أراد رسو
جاوزه خار الجذع حتى تصدع وانشق فرجع إليه رسول الله فمسحه بيده حتى سكن ثم رجع إلى المنبر قال فكان إذا صلى صلى إليه فلما هدم المسجد أخذ ذلك الجذع أبي بن كعب فلم يزل عنده حتى بلي فأكلته الأرضة وعاد رفاتا
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1414
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1(خطبہ کھڑے ہوکر دینا مسنون ہے۔
(2) خطبہ منبر پر دینا چاہیے۔
(3) بڑھئی کا پیشہ ایک جائز پیشہ ہے۔
(4) بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک انصاری خاتون سے کہا تھا کہ اپنے غلام سے منبر بنوا دو اس نے بنوا دیا۔ ممکن ہے پہلے کسی مرد نے یہ تجویز پیش کی ہو۔ اس کے بعد اس غلام سے کہا گیا ہو۔ اور بعد میں رسول اللہﷺ نے خود بھی انصاری خاتون کویاد دہانی کرادی ہو۔ واللہ اعلم۔
(5) امام اور قائد کومتبعین کی اچھی رائے قبول کرنی چاہیے۔
(6) جب منبر پہلے پہل بنایا گیا تو اس کے تین درجے تھے۔ نبی کریمﷺ کے بعد اس کے نیچے مذید درجات کا اضافہ کرکے اسے مزید بلند کردیا گیا۔
(7) بظاہر بے جان نظرآنے والی چیزوں میں شعور اور احساس موجود ہے۔ لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرسکتے۔
(8) کھجور کے تنے کا اس آواز سے رونا کہ سب لوگ سنیں۔ ایک معجزہ ہے۔
(9) رسول للہ ﷺ سے تعلق رکھنے والی اشیاء کوتبرک کےطور پرمحفوظ رکھنادرست ہے۔ بشرط یہ کہ اس نسبت کی صحت کایقین ہو۔
(10) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین مثلا شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن اور الموسوعۃ الحدیثیۃ کے محققین نے اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ نیز انھوں نے کافی تفصیل سے اس روایت کى بابت لکھا ہے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 172، 171/35) لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1414