عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا، اس نے سمجھ کر نہیں پڑھا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1347]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1347
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت میں قرآن مجید ختم کرنے کی مدت تین دن بیان ہوئی ہے۔ اورگزشتہ روایت میں سات دن اور بعض روایات میں پانچ دنوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔ کہ ان روایات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو کو مختلف اوقات میں تاکید کے طور پر یہ ارشادات فرمائے۔ نیز امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ا س کی بابت یوں رقمطراز ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم قرآن کی بابت دنوں کے تعین میں مختلف فرامین ہیں۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے مختلف اشخاص کے احوال کے پیش نظریہ فرامین ارشاد فرمائے۔ یعنی ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تین دن فرمائے۔ اور ایک کو سات دن اور ایک کو پانچ دن لہٰذا تین دن سے کم مدت میں قرآن مجید ختم نہیں کرنا چاہیے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: (فتح الباري97/9 والموسوعة الحدیثیة مسندالإمام أحمد: 53، 52/11)
(2) تلاوت قرآن مجید کا اصل مقصد اس کا فہم اور اس پر غور وفکر ہے اس لئے قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنا ضروری ہے۔ مزید کسی اچھے عالم کی تفسیر کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔ تاہم سلف صالحین کی فکر سے ہٹ کر تفسیر کرنے والوں کی تصنیفات سے اجتناب ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1347