عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے قرآن حفظ کیا، اور پورا قرآن ایک ہی رات میں پڑھنے کی عادت بنا لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ڈر ہے کہ کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد تم اکتا جاؤ گے، لہٰذا تم اسے ایک مہینے میں پڑھا کرو“ میں نے کہا: مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو دس دن میں پڑھا کرو“ میں نے کہا: مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے تو سات دن میں پڑھا کرو“ میں نے کہا: مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1346]
وضاحت: ۱؎: یعنی سات دن سے کم میں ختم قرآن کی اجازت نہ دی، صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سات دن سے کم میں ختم قرآن نہ کرو، قسطلانی نے کہا کہ یہ نہی حرمت کے لئے نہیں ہے، اور بعض اہل ظاہر کے نزدیک تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا حرام ہے، نووی کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حد نہیں، جب تک جی لگے اور جتنی طاقت ہو، اس کے لحاظ سے قرآن پڑھے، اور بہتر یہی ہے کہ سات دن سے کم میں ختم نہ کرے، انتہاء تین دن میں، اور قرآن کے معانی اور مطالب میں غور و فکر کر کے پڑھے، اور ہمارے زمانہ میں تو قرآن کے معانی کا ترجمہ ہر زبان میں ہو گیا ہے، پس ترجمہ کے ساتھ تلاوت کرنا زیادہ ثواب ہے، فقیہ ابواللیث کہتے ہیں کہ اقل درجہ یہ ہے کہ آدمی سال بھر میں قرآن دو بار ختم کرے، اور حسن بن زیاد نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ سے نقل کیا ہے کہ جس نے سال بھر میں دو بار پورے قرآن کی قراءت مکمل کی اس نے قرآن کا حق ادا کیا، کیونکہ جبرئیل علیہ السلام نے جس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، دوبار قرآن کا دور کیا، اور بعض نے کہا چالیس دن سے زیادہ ختم قرآن میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن جريج صرح بالسماع عند أحمد (199/2) ويحيي بن حكيم لم يوثقه غير ابن حبان فيما أعلم فھو مستور انوار الصحيفه، صفحه نمبر 425
أخشى أن يطول عليك الزمان وأن تمل فاقرأه في شهر فقلت دعني أستمتع من قوتي وشبابي قال فاقرأه في عشرة قلت دعني أستمتع من قوتي وشبابي قال فاقرأه في سبع قلت دعني أستمتع من قوتي وشبابي فأبى
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1346
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن مزید لکھتے ہیں کہ یہ روایت دیگرشواہد کی بنا پر حسن درجے کی ہے۔ غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز دکتور بشار عواد اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں۔ کہ اس روایت کی سند تو ضعیف ہے۔ البتہ متن صحیح ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نیکیوں میں بہت رغبت رکھتے تھے۔ اسی لئے زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اگرچہ اس میں کتنی مشقت ہو۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی اُمت پر شفقت واضح ہے۔ اگر صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کو اس قدر زیادہ محنت کرنے کی اجازت مل جاتی تو بعد کے لوگ بھی اس کے مطابق عمل کرناچاہتے اور نہ کرسکتے۔
(3) جسم پر برداشت سے زیادہ بوجھ ڈالنا درست نہیں۔
(4) صوفیاء میں جو بعض ایسے اعمال رائج ہوگئے ہیں۔ جن میں جسم پرانتہائی مشقت کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ سنت کے خلاف ہیں۔
(5) نیک عمل کے معمول کو قائم رکھنے کی کوشش مستحسن ہے۔ تاہم اس پر اس حد تک پابندی کرنا درست نہیں کہ نفل اور فرض میں عملاً فرق ہی نہ رہے۔
(6) نماز تہجد میں پڑھنے کےلئے اپنی سہولت کے مطابق تلاوت کی مناسب مقدار کرلینا درست ہے مثلاً ایک پارہ تین پارے یا ایک منزل وغیرہ۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1346