سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی علیہ وسلم نے نماز ظہر اور عصرکو جمع کر کے پڑھا، اور مغرب وعشاء کو جمع کر کے ادا کیا، بغیر کسی خوف اور سفرکے۔ امام مالک رحمه الله فر ماتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح (نمازوں کو جمع کرنا) بارش کی حالت میں کیا تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتّفاق ہے کہ حضر میں بغیر بارش کے دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں معلوم ہے اور یقین ہے کہ علمائے کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے منقول حدیث کے خلاف نیز اس کی معارض بھی کوئی روایت نہ ہو، اکھٹے نہیں ہوسکتے اور علمائے حجاز کا اس پر اتفاق ہے کہ بارش میں دونمازوں کو جمع کرنا جائز ہے۔ لہٰذا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضر میں دو نمازوں کو جمع کرنے کی تاویل اس معنی میں کی ہے جس کے خلاف مسلمانوں کا اتفاق نہیں ہے - کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ مسلمانوں کا اتفاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہو جائے حالانکہ اس حدیث کے خلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بھی مروی نہ ہو - اور وہ روایت جو اہل عراق نے بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں بغیر خوف اور بارش کے دونمازوں کو جمع کیا ہے تو وہ غلط اور سہو ہے اور تمام مسلمانوں کے قول کے مخالف ہے اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ثابت ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر میں بغیر کسی خوف اور بارش کے دو نمازوں کو جمع کیا ہے تو جو مسلمان اس حدیث کی صحت کے بارے میں جان لے، اس کے لئے حلال اور جائز نہیں کہ وہ حضر میں بغیر کسی خوف اور بارش کے دو نمازوں کو جمع کرنا ممنوع قرار دے ـ لہٰذا جو شخص یہ مرفوع حدیث بیان کرے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی خوف، سفر اور بارش کے دو نمازوں کو جمع کیا ہے پھر وہ یہ دعویٰ کرے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نمازوں کو جمع کرنے کے طریقے کے مطابق دو نمازیں جمع کرنا جائز نہیں ہے تو یہ جہالت اور غفلت ہے، کسی عالم کو ذیب نہیں دیتا کہ ایسی بات کہے ـ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ/حدیث: 972]