فوائد و مسائل: بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں دو سجدوں اور تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے گھٹنوں کے بل اٹھنا چاہیے۔ آیئے اختصار کے ساتھ ان کے دلائل کا علمی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں؛
روایت نمبر: ➊
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے:
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی نماز میں اٹھتے وقت اپنے ہاتھوں کا سہارا لے۔“ [مسند الامام احمد: 147/2، سنن ابي داود: 992]
تبصرہ: یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ
”شاذ
“ ہے۔
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں محمد بن عبدالملک غزال کو غلطی لگی ہے۔ اس نے کئی ثقہ و اوثق راویوں کی مخالفت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔
◈ اسی لیے حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس روایت کو
”ضعیف
“ اور
”شاذ
“ قرار دیا ہے۔
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ
(384-458 ھ) اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
یہ غلطی ہے، کیونکہ اس بیان میں محمد بن عبدالملک نے باقی تمام راویوں کی مخالفت کی ہے۔ یہ صحیح کیسے ہو سکتی ہے؟
“ [معرفة السنن والآثار: 43/3] ↰ اس بات پر کئی قوی شواہد موجود ہیں کہ اس بیان میں محمد بن عبدالملک غزال کو وہم ہوا ہے، ملاحظہ فرمائیں؛
➊ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ سے امام احمد بن حنبل، احمد بن محمد بن شبویہ، محمد بن رافع، محمد بن سہل عسکر، حسن بن مہدی اور احمد بن یوسف سلمی نے یہ روایت ان الفاظ میں بیان کی ہے:
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی نماز میں بیٹھے ہوئے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے۔
“ ➋ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے ایک حدیث یوں بیان کی ہے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز میں بائیں ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے منع کیا اور فرمایا یہ تو یہود کی نماز ہے۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 1/ 272، السنن الكبريٰ للبيهقي: 2/ 136، وسنده، صحيح] ↰ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو
”امام بخاری و مسلم رحمہما اللہ کی شرط پر صحیح
“ قرار دیا ہے۔
اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
➌ نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز میں اپنے گھٹنوں کے بل گرا ہوا تھا اور اس نے اپنے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائی ہوئی تھی۔ انہوں نے اسے فرمایا: ایسے نماز نہ پڑھو. اس طرح تو وہ لوگ بیٹھتے ہیں، جن کو سزا دی جا رہی ہو۔
“ [السنن الکبریٰ للبیھقی: 136/2، وسندہ حسن] ↰ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ان بیانات سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ محمد بن عبد الملک نے مذکورہ روایت بیان کرتے ہوئے غلطی کی ہے، لہٰذا ثقہ و اوثق راویوں کی بیان کردہ صحیح حدیث ہی قابل عمل ہے۔ نہ کہ ایک راوی کا وہم۔