تفقہ: یہ حدیث بھی صحیح ہے اور اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس کو ترمذی اور دارقطنی نے
«حسن» [الاحسان فى تقريب صحيح ابن حبان 86/5] اور بیہقی نے
«صحيح» [بيهقي فى السنن 164/2] اور حاکم نے
«اسناده مستقيم» [حاكم فى المستدرك: 238/1] اور خطابی نے
«اسناده جيد لا مطعن فيه» [معالم السنن: 177/1] اور ابن حجر نے
«رجاله ثقات» [دراية لابن حجر:164/1] اور مولانا عبدالحیی لکھنوی رحمہ اللہ نے
«صحيح قوي السند» [السعايه:303/2] کہا ہے۔
اعتراض: اگر کوئی کہے کہ اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق واقع ہے اور وہ متکلم فیہ ہے۔
جواب: جواب اس کا یہ ہے کہ ابن اسحاق کے متعلق جتنی جرحیں نقل شدہ ہیں، وہ سب مرفوع ہیں اور حق یہ ہے کہ وہ بالکل ثقہ ہے اور ان کی توثیق کے متعلق علماء حنفیہ کی کتب کی طرف رجوع کیجئے مثلاً: ① فتح القدیر لابن الہمام، ② محلیٰ شرح المؤطا للشیخ سلام اللہ الدہلوی اور ③ سعایہ للمولانا عبدالحی اللکھنوی
«شهد شاهد بن اهلها» اعتراض: اگر کوئی کہے کہ محمد بن اسحاق مدلس بھی ہے۔
جواب: اس کا جواب یہ ہو گا کہ یہ حدیث سنن دارقطنی اور بیہقی اور مسند احمد میں دوسری سند سے مروی ہے، جس میں ابن اسحاق نے اپنے استاذ مکحول سے سماع کی تصریح کی ہے اور کہا ہے کہ
«حدثني مكحول» اور یہ قاعدہ ہے کہ جب مدلس راوی کسی حدیث کی سند میں ایک جگہ سماع کی تصریح کرتا ہے اور دوسری جگہ نہیں تو اس کی یہ دونوں حدیثیں
«محمول على السماع» ہوں گی۔
[شرح المهذب للامام نووي] علاوہ بریں زید بن واقد وغیرہ نے بھی اس حدیث میں ابن اسحاق کی متابعت کی ہے۔
[التلخيص الحبير لابن الحجر۔ امام الكلام لعبد الحئي] الحاصل: یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے صراحتاً معلوم ہوا ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا نہایت ضروری امر ہے، کیونکہ آپ نے خاص مقتدیوں کو خطاب کر کے اس کے پڑھنے کا حکم فرمایا اور اس کی وجہ بیان فرمائی کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔