عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فجر پڑھی، آپ پر قرأت دشوار ہو گئی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا: ”مجھے لگ رہا ہے کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کی قسم ہم قرأت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”تم ایسا نہ کیا کرو سوائے سورۃ فاتحہ کے اس لیے کہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث زہری نے بھی محمود بن ربیع سے اور محمود نے عبادہ بن صامت سے اور عبادہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی، یہ سب سے صحیح روایت ہے،
۳ - اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، انس، ابوقتادہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا امام کے پیچھے قرأت کے سلسلے میں عمل اسی حدیث پر ہے۔ ائمہ کرام میں سے مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے، یہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 311]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصلاة 136 (823)، (تحفة الأشراف: 5111)، مسند احمد (5/313، 316، 322) (حسن) (البانی نے اس حدیث کو ”ضعیف“ کہا ہے، لیکن ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا ہے (3/36-37) ترمذی، دارقطنی اور بیہقی نے حسن کہا ہے، ابن حجر نے بھی اس کو نتائج الافکار میں حسن کہا ہے، ملاحظہ ہو: امام الکلام مولفہ مولانا عبدالحیٔ لکھنوی ص77-278، تراجع الالبانی348)»
وضاحت: ۱؎: امام ترمذی کے اس قول میں اجمال ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں ان میں سے کچھ لوگ سری اور جہری سبھی نمازوں میں قراءت کے قائل ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگ قرأت کے وجوب کے قائل ہیں اور کچھ لوگ اس کو مستحب کہتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: (حديث: ".... فلا تفعلوا إلا بأم القرآن.... ") ضعيف، (حديث: " لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب ") صحيح (حديث: " لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب ") ، ابن ماجة (837) ، (حديث: ".... فلا تفعلوا إلا بأم القرآن.... ") ، ضعيف أبي داود (146) // عندنا في " ضعيف أبي داود " برقم (176 / 823) ، ضعيف الجامع الصغير (2082 و 4681) //
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 311
اردو حاشہ: 1؎: امام ترمذی کے اس قول میں اجمال ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں ان میں سے کچھ لوگ سری اور جہری سبھی نمازوں میں قراء ت کے قائل ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگ قرأت کے وجوب کے قائل ہیں اور کچھ لوگ اس کو مستحب کہتے ہیں۔ نوٹ: (البانی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، لیکن ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا ہے (3/36-37) ترمذی، دار قطنی اور بیہقی نے حسن کہا ہے، ابن حجرنے بھی اس کو نتائج الافکار میں حسن کہا ہے، ملاحظہ ہو: امام الکلام مؤلفہ مولانا عبدالحیٔ لکھنوی ص77-278، تراجع الالبانی 348)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 311
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 756
´سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں` «. . . لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب .» ”۔۔۔جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔“[صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 756]
تفقہ اب یہ حدیث شریف بعمومہ امام، مقتدی اور منفرد، تینوں کو شامل ہے۔ اور اس کے عام ہونے پر لفظ «من» دال ہے جو کہ الفاظ عموم میں سے ہے اور جیسے یہ حدیث شریف ہر مصلیٰ کو عام ہے ویسے ہر نماز (فرض ہو خواہ نفل) کو بھی عام ہے اور اس عموم پر لفظ «لا صلوٰة» دلالت کرتا ہے او اس عام کو خاص کرنے کے لئے جو دلائل پیش کیے گئے ہیں وہ سب بےسروپا ہیں۔ اس لئے: ◈ امام خطابی نے لکھا ہے کہ: «هذا عموم لا يجوز يخصيصه الا بدليل»[معام السنن: 177/1] ”اس حدیث شریف کا حکم عام ہے اور اس سے کسی فرد کو خاص کرنا بغیر کسی دلیل کے جائز نہیں ہے۔“
اور اسی طرح: ◈ امام المغرب ابن عبدالبر النمری (جن کی اگر علمی حیثیت معلوم کرنی ہو تو ان کے تلمیذ رشید فخر الاندلس ابن حزم کی تصانیف کی طرف رجوع کیجئے) وہ بھی اس مذکورہ حدیث شریف کے عموم کے قائل ہیں۔ چنانچہ اپنی مایہ ناز قابل فخر کتاب ” التمہید“ میں اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ: «عام لا خصه شيء لان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يخص بقوله ذلك مصليا من مصل»[التمهيد: 442/4] ”یہ حدیث عام ہے اور اس کو خاص کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مذکور قول مبارک سے کسی نمازی کو خاص نہیں کیا ہے (تو آپ کی تخصیص کے بغیر یہ عام کیونکر خاص ہو سکتا ہے)“
پھر اگر کوئی کہے کہ «لا صلوٰة» میں کلمہ «لا» سے مراد نفی کمال کی ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہاں «لا» سے نفی کمال کی مراد لینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ یہ دو وجہ سے جائز نہیں ہے: اولاً: کلمہ «لا» نفی جنس کے واسطے ہے اور یہ کلمہ ذات کی نفی کے لیے موضوع ہوا ہے نہ کہ نفی کمال کے لیے۔ پس معنیٰ حقیقی سے بلاوجہ اعراض کر کے نفی کمال مراد لینا ہرگز جائز نہیں اور اگر فرض کیا جائے کہ انتقاء ذات صلوٰۃ غیر ممکن ہے تو اس تقدیر پر بھی صحت کی طرف سے رجوع ہو گا نہ کہ کمال کی طرف۔ کیونکہ نفی صحت اور نفی کمال اگرچہ دونوں مجازی معنیٰ ہیں لیکن نفی صحت کی «اقرب الى الحقيقة» ہے اور بر تقدیر عدم استقامت معنی حقیقی کے «اقرب المجاز» میں مراد لینا بالاجماع اولیٰ ہے۔ (یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی عبارت سے دو مجازی مفہوم نکلتے ہوں تو جو مفہوم حقیقت کے قریب ہو گا، وہی قابل قبول ہو گا۔)
◈ علامہ آلوسی فرماتے ہیں: «والحمل على المجاز الاقرب عند تعذر الحقيقة اولي بل واجب بالاجماع» ”حقیقی معنی معتذر ہونے وقت مجاز اقرب پر محمول کرنا اولیٰ بلکہ واجب بالا جماع ہے۔“[تفسير روح المعاني] ثانیاً: دوسری وجہ یہ ہے کہ دارقطنی، ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم کی بعض روایات میں لفظ «لا تجزئ» واقع ہوا ہے۔ پھر یہاں نفی کمال کی مراد لینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ کیونکہ [الاحاديث يفسر بعضها بعضا]
◈ امام بیہقی کے جزء القراۃ میں مرفوعاً مروی ہے کہ: «لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب خلف الامام» ”جس نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کی نماز نہیں ہے۔“[جزء القراة: 56] اور اس حدیث شریف کے متعلق امام بیہقی کا یہ فیصلہ ہے کہ: «اسناده صحيح والزيادة التى فيه صحيحة مشهورة من اوجه كثيرة»[جزء القراة: 56] ↰ ”اس حدیث کی اسناد صحیح ہے اور جو اس میں خلف الامام کی زیادتی ہے وہ بھی صحیح اور مشہور ہے (کیونکہ) بہت سی وجوہ سے مروی ہے۔“
◈ طبرانی کی کتاب مسند الشامیین میں بایں الفاظ مبارکہ مروی ہے کہ: «من صلى خلف الامام فليقرا بفاتحة الكتاب» ”جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے اس کو سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے۔“ ↰ اور یہ حدیث بالکل صحیح اور قابل اعتبار ہے اور اس کا عکس حافظ ہیثمی کی کتاب ”مجمع الزوائد“ میں اس طرح ملتا ہے کہ: «رجاله موثقون» اس حدیث کے راوی سب پختہ اور معتبر ہیں۔ [مجمع الزوائد للھیثمی: 111/2]
اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 20
علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 823
´امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھنا` «. . . لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب فإنه لا صلاة لمن لم يقرا بها .» ”سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی“۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 823]
تفقہ: یہ حدیث بھی صحیح ہے اور اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس کو ترمذی اور دارقطنی نے «حسن»[الاحسان فى تقريب صحيح ابن حبان 86/5] اور بیہقی نے «صحيح»[بيهقي فى السنن 164/2] اور حاکم نے «اسناده مستقيم»[حاكم فى المستدرك: 238/1] اور خطابی نے «اسناده جيد لا مطعن فيه»[معالم السنن: 177/1] اور ابن حجر نے «رجاله ثقات»[دراية لابن حجر:164/1] اور مولانا عبدالحیی لکھنوی رحمہ اللہ نے «صحيح قوي السند»[السعايه:303/2] کہا ہے۔
اعتراض:
اگر کوئی کہے کہ اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق واقع ہے اور وہ متکلم فیہ ہے۔
جواب: جواب اس کا یہ ہے کہ ابن اسحاق کے متعلق جتنی جرحیں نقل شدہ ہیں، وہ سب مرفوع ہیں اور حق یہ ہے کہ وہ بالکل ثقہ ہے اور ان کی توثیق کے متعلق علماء حنفیہ کی کتب کی طرف رجوع کیجئے مثلاً: ① فتح القدیر لابن الہمام، ② محلیٰ شرح المؤطا للشیخ سلام اللہ الدہلوی اور ③ سعایہ للمولانا عبدالحی اللکھنوی «شهد شاهد بن اهلها»
اعتراض:
اگر کوئی کہے کہ محمد بن اسحاق مدلس بھی ہے۔
جواب: اس کا جواب یہ ہو گا کہ یہ حدیث سنن دارقطنی اور بیہقی اور مسند احمد میں دوسری سند سے مروی ہے، جس میں ابن اسحاق نے اپنے استاذ مکحول سے سماع کی تصریح کی ہے اور کہا ہے کہ «حدثني مكحول» اور یہ قاعدہ ہے کہ جب مدلس راوی کسی حدیث کی سند میں ایک جگہ سماع کی تصریح کرتا ہے اور دوسری جگہ نہیں تو اس کی یہ دونوں حدیثیں «محمول على السماع» ہوں گی۔ [شرح المهذب للامام نووي] علاوہ بریں زید بن واقد وغیرہ نے بھی اس حدیث میں ابن اسحاق کی متابعت کی ہے۔ [التلخيص الحبير لابن الحجر۔ امام الكلام لعبد الحئي]
الحاصل: یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے صراحتاً معلوم ہوا ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا نہایت ضروری امر ہے، کیونکہ آپ نے خاص مقتدیوں کو خطاب کر کے اس کے پڑھنے کا حکم فرمایا اور اس کی وجہ بیان فرمائی کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 23
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 218
´سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں` «. . . لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب .» ”۔۔۔جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔“[صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 756]
لغوی تشریح: «بِأُمِّ الْقُرْآنِ» ام القرآن سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ یہ حدیث سورہ فاتحہ کے (نماز میں) پڑھنے کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے، اس لیے کہ ”لا“ نافیہ جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے اور یہ اس کے حقیقی معنی ہیں۔ یہ صفات کی نفی کے لئے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو۔ اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ نماز کے شرعا معنی تو یہ ہیں کہ وہ اقوال اور افعال کا مجموعہ ہے، لہٰذا بعض ی کل کی نف سے اس کی نفی ہو گی۔ اگر بالفرض ذات کی نفی میں دشواری پیش آئے تو پھر حقیقت کے قریب والی صفت پر محمول کیا جائے گا، مثلاً: اس کی صحت کی نفی اور اس کے کافی ہونے کی نفی۔ اس معنی کی تائید ابن حبان اور دارقطنی کی حدیث میں وارد الفاظ «لَا تُجْزِيءُ صَلَاةٌ» سے ہوتی ہے۔ اس کے معنی ہوئے کہ نماز کافی ہو گی نہ صحیح، چنانچہ جب اس حدیث سے بغیر فاتحہ کے نماز کی نفی اور اس کا صحیح نہ ہونا معلوم ہو گیا تو پھر ثابت ہوا کہ سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے اور اس میں سب شامل ہیں، خواہ امام ہو یا مقتدی یا اکیلا نماز پڑھنے والا۔ سورہ فاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا واجب ہے، اس پر امام احمد اور ابوداود رحمہما اللہ کی روایت جسے مصنف نے بیان کیا ہے نہایت صریح اور واضح دلیل ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھے بغیر کسی کی بھی نماز نہیں ہوتی، خواہ امام ہو یا مقتدی یا کوئی اکیلا شخص۔ صحیح ترین مرفوع احادیث کی روشنی میں یہی مذہب حق اور مبنی بر صداقت ہے۔ شوافع اہل حدیث اور ایل ظاہر اسی طرف گئے ہیں کہ ہر نمازی کے لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے جمہور علماء کا یہی مسلک ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں ہر ایک کے لیے اس کا پڑھنا واجب ہے۔ اس میں امام اور مقتدی کا کوئی فرق نہیں اور نہ جہری اور سری نماز ہی کا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے بھی سورۂ فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور لابدی امر ہے۔ [صحيح مسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة۔۔۔، حديث: 395، 396] ابوداود، ترمذی اور نسائی وغیرہ میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا: ”کیا تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورہ فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔“ اور دوسری احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز قطعاً نہیں ہوتی۔ ➋ مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی نے ”امام الکلام“ اور ”التعلیق الممجد“ میں لکھا ہے: ”کسی بھی صحیح حدیث سے فاتحہ خلف الامام کی ممانعت ثابت نہیں اور اس سلسلے میں جو نقل کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ سری نمازوں میں اور جہری کے سکتات میں مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئیے۔ محدثین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔“ ان کے علاوہ متقدمین ومتاخرین علمائے احناف کی ایک جماعت دلائل کی بنا پر فاتحہ خلف الامام کی قائل رہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز رحمہما اللہ اسی کے قائل تھے حتی کہ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی سری نمازوں کے علاوہ جہری کے سکتات میں فاتحہ خلف الامام کو جائز قرار دیا ہے جس کی با حوالہ تفصیل مولانا ارشاد الحق اثری رحمہ اللہ کی کتاب ”توضیح الکلام“ کی جلد اول میں دیکھی جاسکتی ہے۔
راویٔ حدیث: (حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ) عبادہ کی ”عین“ پر ضمہ اور ”با“ مخفف ہے۔ انصار کے قبیلہ خزرج کے فرد تھے۔ سرداران انصار میں نمایاں شخصیت کے حامل تھے۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شریک تھے۔ غزوہ بدر کے ساتھ دوسرے معرکوں میں بھی شریک ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام کی طرف قاضی اور معلم بنا کر بھیجا۔ پہلے حمص میں قیام پذیر ہوئے بعد ازاں فلسطین کی طرف منتقل ہو گئے اور وہیں ”رملہ“ کے مقام پر وفات پائی اور بقول بعض 34 ہجری میں 72 برس کی عمر پاکر بیت المقدس میں فوت ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 218
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 822
´جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز کے حکم کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورت نہیں پڑھی ۱؎۔“ سفیان کہتے ہیں: یہ اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے ۲؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 822]
822۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث صحیح ہے، مگر بعض روایات میں «فصاعدا» کا لفظ منقول ہے۔ اس لفظ کے لگانے کا فائدہ یہ ہے کہ کم از کم سورہ فاتحہ پڑھے یا اس سے کچھ زیادہ پڑھے، سورہ فاتحہ سے کم نہ پڑھے، یعنی سورہ فاتحہ کا پڑھنا بہرحال ضروری ہے۔ باقی رہا سفیان رحمہ اللہ کا بیان کہ یہ اکیلے کے لیے ہے، تو یہ ان کی رائے ہے اور اس مسئلے میں ان لوگوں کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ ➋ «لا صلاة» میں لائے نفی جنس ہے، نفی کمال کا نہیں۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے کیا خوب ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اس کے رکن ہونے پر دلالت کرتے ہیں، «لاصلوٰة الّا بفاتحة الكتاب» اور «لا تجزي صلوٰة رجل حتيٰ يقيم ظهره فى الرّكوع والسّجود» آدمی کی نماز جائز نہیں ہوتی جب تک کہ رکوع اور سجود میں اپنی کمر سیدھی نہ کر لے۔ جس عمل کو شارع علیہ السلام نے صلوٰۃ سے تعبیر فرمایا ہے اس میں تنبیہ بلیغ ہے کہ یہ نماز میں رکن ہے۔“[حجةالله البالغه 2/4] اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ «لا» نہی ہے۔ اس معنی میں کہ «لا صلاة الّا بقراءة فاتحة الكتاب» یعنی ”فاتحہ کے بغیر نماز مت پڑھو“ جیسے کہ فرمایا: «لا صلوٰة بحضرة الطعام» کھانا تیار ہو تو نماز نہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر 560] ➌ خیال رہے کہ کچھ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ حدیث «لا صلوٰة» کے الفاظ سے سورہ فاتحہ کا فرض ہونا لازم آتا ہے اور یہ قرآن پر اضافہ ہے، یعنی قرآن مجید میں ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی ہو تو خاموشی اختیار کرو۔ اور حدیث میں ہے کہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں۔ یعنی سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازم ہے، جب کہ (ان کے نزدیک) سنت سے قرآن پر اضافہ جائز نہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خانہ ساز اصول ہے، اسے قرآن پر اضافے سے تعبیر کرنا ہی یکسر غلط اور حدیث کو مسترد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اسی من گھڑت اصول کی بابت امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ”اس طرح کی بات کرنا ایک فاسد خیال ہے، جس کا نتیجہ بہت سی پاکیزہ سنتوں کے ترک کی صورت میں نکلتا ہے اور اس قاعدے کی کوئی واضح دلیل اور حجت نہیں ہے۔ کتنے ہی مقام ہیں کہ شارع علیہ السلام نے فرمایا ہے: «لا يجزى كذا . لا يقبل كذا . لا يصح كذا» اور کچھ لوگ اس کے مقابل کہتے ہیں کہ: «يجزئ»، «يقبل» اور «يصح» یہی وجہ ہے کہ سلف (صحابہ کرام) نے ایسے اہل الرای سے بچنے کو کہا ہے۔“ دیکھیے: [نيل الاوطار، باب وجوب قراءة الفاتحة]
➍ «فصاعدا» یعنی ”کچھ مزید“ ظاہر الفاظ کا تقاضا ہے کہ سورة فاتحہ کے علاوہ مذید قراءت بھی واجب ہو لیکن ایسا نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: «فِي كُلِّ صَلَاةٍ يُقْرَأُ فَمَا أَسْمَعَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْمَعْنَاكُمْ وَمَا أَخْفَى عَنَّا أَخْفَيْنَا عَنْكُمْ، وَإِنْ لَمْ تَزِدْ عَلَى أُمِّ الْقُرْآنِ أَجْزَأَتْ، وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ»[صحيح بخاري حديث: 772] ”ہر نماز میں قرأت کی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہمیں سنوایا ہم تمہیں سناتے ہیں اور جس میں وہ ہم سے خامو ش رہے ہم بھی تم سے خامو ش رہتے ہیں۔ اگر تم سورۃ فاتحہ سے مزید نہ پڑھو تو کافی ہے، اگر مزید پڑھو تو بہتر ہے۔“ دراصل لفظ «فصاعدا» میں اس شبہے کا ازالہ ہے کہ کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ صرف اور صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی ہے اور کچھ نہیں پڑھنا، تو فرمایا کہ سورہ فاتحہ کے ساتھ مزید قرأت بھی ہونی چاہیے، الا یہ کہ انسان مقتدی ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 822
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 823
´جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز کے حکم کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز فجر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ نے قرآت شروع کی تو وہ آپ پر دشوار ہو گئی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: ”شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟“، ہم نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں تو ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 823]
823۔ اردو حاشیہ: شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے، جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔ اور خطابی کہتے ہیں: «جيد لاطعن فيه» یعنی ”حدیث اچھی ہے اس میں کوئی عیب نہیں“[عن المعبود] علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں ایک علت ہے کہ اس کو ابن اسحاق نے مکحول سے بصیغہ «عن» روایت کیا ہے اور وہ مدلس ہے۔ اور مکحول سے اپنے سماع کی صراحت بھی نہیں کی ہے، ایسی صورت میں حدیث ناقابل حجت ہو جاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ابراہیم بن سعد سے روایت کیا ہے اور اس میں مکحول سے سماع کی صراحت موجود ہے، اس طرح یہ حدیث موصول اور صحیح ہو جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب القرأت میں اسے بیان کیا ہے اور اسے صحیح لکھا ہے۔ ابن اسحاق کی توثیق و ثنا بیان کی ہے اور اس حدیث سے حجت لی ہے۔ نیز ابن اسحاق کے علاوہ ایک دوسری سند سے بھی بیان کی ہے اور یہ صحیح ہے۔ [تهذيب سنن ابي داؤد لا بن القيم وعون المعبود]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 823
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 911
´نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب و فرضیت کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 911]
911 ۔ اردو حاشیہ: حدیث کے الفاظ عام ہیں جس میں اکیلا، امام اور مقتدی سب شامل ہیں۔ اسی طرح لفظ صلاۃ بھی عام ہے۔ فرض نماز ہو یا نفل، انفرادی ہو یا اجتماعی، سری ہو یا جہری۔ اور یہی مفہوم صحیح ہے۔ احناف ا ور مالکیوں کے نزدیک مقتدی اس سے مستثنیٰ ہے۔ مالکیہ کے نزدیک صرف جہری نماز میں استثنا ہے۔ مالکیہ کی دلیل قرآن کی آیت ہے: «وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ»[الأعراف: 7: 204] ”جب قرآن مجید پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو۔“ انصات کی بحث حدیث نمبر 910 میں گزر چکی ہے۔ احناف کا استدلال اس دوسری روایت سے بھی ہے: «من كان له إمامٌ فقراءةُ الإمامِ له قراءةٌ»[سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، حدیث: 850] مگر یہ حدیث ائمہ حدیث کے نزدیک بالاتفاق منقطع ہے۔ سوائے ضعیف راویوں کے کسی نے اسے متصل سند کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے، لہٰذا یہ روایت غیر معتبر ہے، نیز یہاں قراء ت سے مراد جہر ہو سکتا ہے، یعنی امام کے ہوتے ہوئے جہراً نہ پڑھا جائے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ جس آدمی کا امام ہو، یعنی وہ امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو اسے اپنی قرأت کرنی چاہیے کیونکہ امام کی قرأت صرف اپنے لیے ہوتی ہے۔ ان دو تاویلوں سے یہ روایت دوسری صحیح روایات کے موافق ہو جائے گی، ورنہ محدثین کا فیصلہ اوپر گزر چکا ہے۔ یا اس روایت کو فاتحہ سے مابعد قرأت پر محمول کیا جائے، یعنی فاتحہ کے بعد مقتدی نہ پڑھے۔ اس طرح تمام روایات پر عمل ممکن ہو گا۔ ضعیف روایات کی بنا پر صحیح روایات کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ویسے بھی مقتدی اپنی نماز کے تمام ارکان خود ادا کرتا ہے، امام اس کی طرف سے ایک رکن تو ایک طرف رہا، کوئی مستحب بھی ادا نہیں کرتا حتیٰ کہ دعائے استفتاح، تسبیحات، رکوع و سجود، تمام اذکار اور اد اور تکبیرات تک خود پڑھتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ قرأت جو نماز کا رکن اعظم ہے، مقتدی چھوڑ دے کہ امام کی قرأت مجھے کفایت کر جائے گی۔ اگر قرأت امام خصوصاً سری نمازوں میں، مقتدی کی طرف سے کافی ہے تو باقی چیزیں کیوں کافی نہیں؟ یہ بات انتہائی قابل غور ہے، نیز احناف کے نزدیک قرأت نماز کا لازمی رکن ہے تو رکن کے بغیر نماز کیسے ادا ہو جائے گی؟ جب کہ ہر ایک کی نماز کی قبولیت الگ الگ ہے۔ ہو سکتا ہے امام کی نماز قبول نہ ہو۔ (مثلاً: وہ سود خور ہے) مگر مقتدی کی ہو جائے۔ اس کے برعکس قرآن مجید میں ہے: «وَأَنْ لَيْسَ لِلإنْسَانِ إِلا مَا سَعَى»[النجم: 53: 39] ”انسان کے کام وہی عمل آئے گا جو اس نے خود کیا۔“ ایسے واضح دلائل کے مقابلے میں چند ایک ضعیف اور انتہائی کمزور روایات کو پیش کر کے امام کے پیچھے ہر قسم کی (سری اور جہری) نمازوں میں مقتدی کو سورۂ فاتحہ کی قرأت سے جبراً روک دینا یقیناًً حیرت انگیزجسارت ہے۔ جس پر احباب کو غور کرنا چاہیے۔ «لا صلاةَ» میں ”لا“ جنس کی نفی کے لیے ہے، یعنی اس سے ذات کی نفی مراد ہے، صفات کی نفی مراد نہیں جیسا کہ بعض لوگ اسے لائے نفی کمال، کہتے ہیں کیونکہ صفات کی نفی وہاں مراد ہوتی ہے جہاں ذات کی نفی مراد لینے سے کوئی قرینہ مانع ہو اور اس حدیث میں اس ”لا“ کو لائے نفی جنس بنانے میں کوئی قرینہ مانع نہیں بلکہ اس کی تائید اسماعیلی کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ «لا تجزئُ صلاةٌ لا يُقرأُ فيها بفاتحةِ الكتابِ»”جس نماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ کفایت نہیں کرتی۔“ یعنی وہ قبول نہیں ہوتی جیسا کہ دوسری روایت میں ہے: «لا تُقْبَلُ صلاةٌ لا يُقْرَأُ فيها بأمِّ القران»”جس نماز میں میں ام القرآن، یعنی سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ (عنداللہ) مقبول نہیں۔“ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 2؍313۔ 315، تحت حدیث: 756، وعمدة القاري: 6؍15۔ 17، تحت حدیث: 756]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 911
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 912
´نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب و فرضیت کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ مزید نہ پڑھے ۱؎۔“[سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 912]
912 ۔ اردو حاشیہ: ➊ نماز صحیح ہونے کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں: 1۔ صرف سورۂ فاتحہ پڑھنا۔ 2۔ سورۂ فاتحہ سے زائد بھی پڑھنا۔ گویا صرف فاتحہ فرض ہے، زائد قرأت فرض نہیں، اس کے بغیر بھی نماز ہو جائے گی۔ یہ محدثین کا مسلک ہے۔ احناف کے نزدیک فاتحہ پڑھنا واجب ہے ا ور فاتحہ کے بعد اور سورت پڑھنا فرض ہے، یعنی وہ فرض اور واجب میں فرق کرتے ہیں۔ احناف کے نزدیک فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ناقص ہو گی جس کی تلافی سجدۂ سہو سے کی جائے گی جب کہ محدثین کے نزدیک سورۂ فاتحہ ہر ایک کے لیے ضروری ہے، مقتدی کی صرف فاتحہ والی نماز ہو گی کیونکہ اس کے لیے جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ سے زائد پڑھنا منع ہے اور فاتحہ سے زائد والی نماز امام اور منفرد کی ہو گی۔ دونوں نمازیں بالکل صحیح ہیں۔ معلوم ہوا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی چاہیے تاکہ وہ اس حدیث پر عمل کر سکے۔ ➋ بعض لوگوں نے اس حدیث کے غلط معنیٰ کیے ہیں کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ اور زائد نہیں پڑھتا۔ گویا فاتحہ کے بغیر بھی نماز نہیں اور فاتحہ سے زائد کے بغیر بھی نماز نہیں۔ دونوں فرض ہیں مگر یہ معنیٰ کرنا لغت عربیہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ اسی قسم کی ایک اور حدیث ہے جس سے معنیٰ مزید واضح ہو گا: «لا تُقطعُ يدُ السارقِ إلا في ربعِ دينارٍ فصاعدًا»[صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6789، وصحیح مسلم، الحدود، حدیث: 1684] ”چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زائد کے بغیر نہیں کاٹا جائے گا۔“ یعنی ہاتھ کاٹنے کے لیے چوتھائی دینار کی چوری کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی کاٹیں گے نہ ہو تب بھی۔ اس طرح متعلقہ حدیث کے معنی ہیں کہ نماز کی صحت کے لیے سورت فاتحہ کی قرأت کافی ہے۔ زائد ہو تب بھی نماز ہو جائے گی، نہ ہو تب بھی۔ زائد سے اس وقت جب نمازی منفرد یا امام ہو اور صرف فاتحہ سے اس وقت جب نمازی مقتدی ہو۔ ➌ سورۂ فاتحہ کی قرأت ہر رکعت میں ضروری ہے، نہ کہ ساری نماز میں ایک دفعہ۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئی الصلاۃ کو نماز سکھانے کے بعد کہا: تھا: «افعل ذلك في صلاتِك كلِّها»[صحيح البخاري، الأذان، حديث: 757] ”یہ کام اپنی ساری نماز (ہر رکعت) میں کر۔“ احناف نے بغیر کسی دلیل کے فرض نماز کی آخری دورکعات میں قرأت فاتحہ یا مطلق قرأت کو ضروری قرار نہیں دیا بلکہ کوئی نمازی حتیٰ کہ امام بھی آخری دورکعات میں (رباعی نماز میں) قرأت کے بجائے خاموش کھڑا رہے تو اس کی نماز احناف کے نزدیک قطعاً صحیح ہو گی۔ حیرانی کی بات ہے کہ بغیر کسی شرعی دلیل کے اتنا بڑا خطرہ مول لیا گیا! ➍ ”نماز نہیں ہوتی۔“ احناف معنیٰ کرتے ہیں کہ ”کامل نہیں ہوتی“ حالانکہ اگر یہ معنیٰ کریں تو لازم آئے گا کہ فاتحہ واجب بھی نہ ہو کیونکہ کمال کی نفی تو سنت کے ترک سے ہوتی ہے جب کہ فاتحہ پڑھنا احناف کے نزدیک واجب ہے، سوائے مقتدی کے کہتے ہیں: مطلق قرأت قرآن فرض ہے، فاتحہ واجب ہے۔ گر کوئی ا ور سورت پڑھ لے، فاتحہ نہ پڑھے تو نماز ہو جائے گی مگر سجدۂ سہو لازم ہو گا کیونکہ قرآن مجید میں تو آخری قعدہ اور تشہد کا بھی ذکر نہیں تو وہ فرض بھی نہ ہونا چاہیے، نیز یہ آیت کون سی نماز کی قرأت کے بارے میں اتری ہے؟ پھر یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے۔ اس کے ابہام کو دور کرتی ہے۔ اس کے اشکال کو واضح کرتی ہے۔ اگر اس قسم کے واضح الفاظ قرآن کی تفسیر نہیں بن سکتے تو حدیث کو تفسیر کہنے کا کیا فائدہ؟ غور فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 912
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 921
´جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نمازیں پڑھائیں جن میں قرآت بلند آواز سے کی جاتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں بآواز بلند قرآت کروں تو تم میں سے کوئی بھی سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے۔“[سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 921]
921 ۔ اردو حاشیہ: ➊ بعض روایات میں ذکر ہے کہ وہ صبح کی نماز تھی۔ آپ پر قرأت ثقیل ہو گئی تو ٓپ نے نماز کے بعد فرمایا: ”شاید تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔ امام کے پیچھے سوائے فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔“ امام کے پیچھے جہری نماز میں سورۂ فاتحہ ضرور پڑھی جائے، البتہ اس سے زائد پڑھنا منع ہے۔ اور سری نماز میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ بھی پڑھا جا سکتا ہے اگرچہ ضروری نہیں۔ ➋ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں جامع بات یہ ہے کہ پڑھنے کا حکم آیا ہے، منع ثابت نہیں۔ اگر کہیں نہی ہے تو وہ مطلق قرأت، یعنی فاتحہ سے زائد قرأت سے ہے، نہ کہ فاتحہ سے۔ اور اگر کسی میں ہر قرأت سے روکا گیا ہے تو وہ سنداً صحیح نہیں۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم مروی ہے۔ صحیح سند کے ساتھ فاتحہ سے ممانعت کسی صحابی سے منقول نہیں بلکہ چھوڑنے کی رخصت بھی نہیں آتی، سوائے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے۔ ان کا قول ہے کہ جو آدمی فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ (لیکن یہ قول صحیح احادیث کے خلاف ہے)۔ احناف کے علاوہ باقی مسالک امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل ہیں۔ احناف میں سے بھی امام احمد رحمہ اللہ سری نماز میں فاتحہ پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ ➌ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”التخلیص“ میں اس پر سیرحاصل بحث کرتے ہوئے ائمہ أجلاء سے اس کی صحت نقل کی ہے اور اس کی تائید میں مزید طرق نقل کیے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [التلخیص الجبیر: 1؍421، رقم: 345]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 921
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث837
´امام کے پیچھے قرات کا حکم۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 837]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس سے ثابت ہوا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنا نماز کا رکن ہے۔ جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
(2) ”کوئی نماز نہیں“ کا مطلب ہے کہ فرض اور نفل نماز امام، مقتدی اور اکیلے کی نماز سب کا ایک ہی حکم ہے۔ یعنی سب کے لئے سورہ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے۔
(3) بعض حضرات اس حدیث کو آیت مبارکہ ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾(المزمل: 20) کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے۔ ”پڑھوقرآن میں سے جو آسان ہو“ حقیقت یہ ہے کہ آیت مبارکہ اس حدیث شریف سے متعارض نہیں ہے۔ جیسے کہ آیت کے ابتدائی حصے سے واضح ہوتا ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سمیت رات کو کئی کئی گھنٹے تہجد پڑھتے تھے۔ اب اس حکم میں تخفیف کردی گئی ہے۔ اب چھ یا آٹھ گھنٹے نماز پڑھنا ضروری نہیں۔ بلکہ ہر شخص اپنی ہمت اور شوق کے مطابق کم یا زیادہ وقت تک تہجد پڑھ سکتا ہے۔ اس کا سورہ فاتحہ کے وجوب سے کوئی تعارض نہیں۔ آیت اور حدیث کو ملا کرمسئلہ واضح ہوجاتا ہے۔ سورہ فاتحہ لازماً پڑھو۔ اس کے بعد باقی قرآن میں سے جتنا آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لو۔ ویسے بھی سورہ فاتحہ اتنی مشکل نہیں کہ اسے آسانی سے پڑھی جانے والی قراءت کے حکم کے خلاف سمجھا جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 837
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 247
´سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔` عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 247]
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے، فرض ہو یا نفل ہو، خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے ہو امام ہو یا مقتدی، ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی، اس لیے کہ لا نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے معنی میں اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع نماز مخصوص اقوال اور افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے، لہذا بعض یا کل کی نفی سے اس کی نفی ہو جائے گی اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہو سکتی تو وہ معنی مراد لیاجائے گا جو ذات سے قریب تر ہو اور وہ صحت ہے نہ کہ کمال اس لیے کہ صحت اور کمال دونوں مجاز میں سے ہیں، صحت ذات سے اقرب اور کمال ذات سے ابعد ہے اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہو گی جو ذات سے اقرب ہے، نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلہ میں ذات سے ابعد ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 247
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:390
390- سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اس شخص کی نماز (کامل) نہیں ہوتی جو اس میں سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:390]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سورۃ الفاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، جس رکعت میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی گئی، وہ رکعت نہیں ہے، وہ رکعت دوبارہ دہرائی جائے گی، ورنہ نماز نہیں ہوگی، خواہ نماز جہری ہو یا سری ہو، امام ہو یا منفرد ہو، بہت زیادہ احادیث میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: کیا تم میرے ساتھ (یعنی امام کے پیچھے قرٱت کرتے ہو؟) انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ بھی نہ پڑھو، کیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (کتاب ال قرأت للبيهقى، ص: 64، حدیث: 121، سندہ صحیح) نیز فاتحہ خلف الامام پر سب سے قیمتی، بے مثال اور مفید کتاب استاذ محترم محدث العصر شیخ ارشادالحق اثری حفظہ اللہ کی ”توضیح الکلام“ ہے۔ فـجـزاه الله خيرا! اس کا مطالعہ ازحد ضروری ہے، یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں فاتحہ خلف الامام کے اثبات کے دلائل ہیں، اور دوسرے حصے میں احناف کے کمزور دلائل کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ بلکہ جو طالب علم اصول حدیث اور علم جرح و تعدیل میں سیکھنا چاہتا ہے، وہ دل لگا کر کئی بار اس کتاب کو سمجھ لے تو وہ کبھی بھی علوم حدیث میں مارنہیں کھائے گا، ان شاءاللہ۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 390
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 874
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہوتی، جس نے فاتحہ الکتاب نہ پڑھی۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:874]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یہ روایت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ فاتحہ کے بغیر کسی کی امام ہو یا منفرد یا مقتدی کی کوئی نماز سری ہو یا جہری، فرضی ہو یا نفلی نہیں ہوتی۔ اور ہر رکعت نماز ہے، اس لیے نماز کی تمام رکعات میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 874
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 756
756. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کی نماز ہی نہیں ہوئی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:756]
حدیث حاشیہ: امام کے پیچھے جہری اور سری نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا اثبات بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ باوجود اس حقیقت کے پھر یہ ایک معرکہ آراءبحث چلی آرہی ہے۔ جس پر بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ جو حضرات اس کے قائل نہیں ہیں۔ ان میں بعض کا توغلویہاں تک بڑھاہواہے کہ وہ اسے حرام مطلق قراردیتے ہیں اورامام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے والوں کے بارے میں یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے منہ میں آگ کے انگارے بھرے جائیں گے۔ نعوذباللہ منه۔ اسی لیے مناسب ہوا کہ اس مسئلہ کی کچھ وضاحت کردی جائے تاکہ قائلین اورمانعین کے درمیان نفاق کی خلیج کچھ نہ کچھ کم ہوسکے۔ یہاں حضرت امام بخاری ؒ جو حدیث لائے ہیں اس کے ذیل میں حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وسميت فاتحة الكتاب؛ لأنه يبدأ بكتابتها في المصاحف، ويبدأ بقراءتها في الصلاة، وفاتحة كل شيء مبدأه الذي يفتح به ما بعده، افتتح فلان كذا ابتدأ به. قال ابن جرير في تفسيره (ج1: ص35) : وسميت فاتحة الكتاب؛ لأنها يفتتح بكتابتها المصاحف ويقرأ بها في الصلاة فهي فواتح لما يتلوها من سور القرآن في الكتابة والقراءة، وسميت أم القرآن لتقدمها على سائر سور القرآن غيرها، وتأخر ما سواها خلفها في القراءة والكتابة الخ۔ (مرعاة، ج1، ص: 583) خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ سورۃ الحمد شریف کا نام فاتحۃ الکتاب اس لیے رکھا گیاکہ قرآن مجید کی کتابت اسی سے شروع ہوتی ہے اورنماز میں قرات کی ابتدا بھی اسی سے کی جاتی ہے۔ علامہ ابن جریر نے بھی اپنی تفسیر میں یہی لکھاہے۔ اس کو ام القرآن اس لیے کہا گیا کہ کتابت اورقرات میں یہ اس کی تمام سورتوں پر مقدم ہے۔ اورجملہ سورتیں اس کے بعد ہیں۔ یہ حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ نمازمیں قرات سورۃ فاتحہ فرض ہے اوریہ نماز کے ارکان میں سے ہے۔ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بھی اپنی مشہورکتاب حجۃ اللہ البالغۃ، جلد2، ص: 4 پر اسے نماز کا اہم رکن تسلیم کیاہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث عام ہے۔ نماز چاہے فرض ہو چاہے نفل، اوروہ شخص امام ہو یا مقتدی، یااکیلا۔ یعنی کسی شخص کی کوئی نماز بھی بغیرفاتحہ پڑھے نہیں ہوگی۔ چنانچہ مشہورشارح بخاری حضرت علامہ قسطلانی ؒ شرح صحیح بخاری، جلد2، ص: 439 میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: أي في کل رکعة منفردا أوإماما أومأموما سواءأسرالإمام أوجهر۔ یعنی اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ہر رکعت میں ہرنماز کو خواہ اکیلا ہو یاامام ہو، یامقتدی، خواہ امام آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ نیز اسی طرح علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وفي الحدیث (أي حدیث عبادة) دلیل علی أن قراءة الفاتحة واجبة علی الإمام والمنفرد والمأموم في الصلوٰت کلها۔ (عمدة القاري شرح صحیح بخاري، جلد3، ص: 63) یعنی حضرت عبادہ ؓ کی یہ حدیث اس امر پر صاف دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا امام اور اکیلے اورمقتدی سب کے لیے تمام نمازوں میں واجب ہے۔ نیز عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج3، ص: 84) میں لکھتے ہیں: حنفیوں کے مشہور شارح بخاری امام محمود احمدعینی التوفی 855ھ استدل بهذاالحدیث عبداللہ بن المبارك والأوزاعي ومالك و الشافعي وأحمد وإسحاق وأبوثور وداود علی وجوب قراة الفاتحة خلف الإمام في جمیع الصلوٰت۔ یعنی اس حدیث (حضرت عبادہ ؓ) سے امام عبداللہ بن مبارک، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوثور، امام داؤد رحمۃ اللہ علیہم نے (مقتدی کے لیے) امام کے پیچھے تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب پر دلیل پکڑی ہے۔ امام نووی ؒ المجموع شرح مہذب، جلد3، ص: 326 مصری میں فرماتے ہیں: وقراءة الفاتحة للقادر علیها فرض من فروض الصلوٰة ورکن من أرکانها ومتعینة لایقوم ترجمتها بغیرالعربیة ولاقراءة غیرها من القرآن ویستوي في تعینها جمیع الصلوٰت فرضها ونفلها جهرها و سرها والرجل و المرأة والمسافر والصبي والقائم والقاعد والمضظجع وفي حال الخوف وغیرها سواء في تعینها الإمام والمأموم والمنفرد۔ یعنی جو شخص سورۃ فاتحہ پڑھ سکتاہے (یعنی اس کو یہ سورہ یاد ہے) اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اورنماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اوریہ سورۃ فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیرعربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتاہے اورنہ ہی قرآن مجید کی دیگر آیت۔ اوراس تعین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یاسری اور مردعورت، مسافر، لڑکا (نابالغ) اورکھڑا ہوکر نماز پڑھنے والااوربیٹھ کر یالیٹ کر نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس تعین فاتحہ میں امام، مقتدی اوراکیلا نماز پڑھنے والا (سبھی) برابر ہیں۔ حدیث اورشارحین حدیث کی اس قدر کھلی ہوئی وضاحت کے باوجود کچھ حضرات کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس حدیث میں امام یا مقتدی یامنفرد کا ذکر نہیں۔ اس لیے اس سے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کی فرضیت ثابت نہیں ہوگی۔ اس کے جواب کے لیے حدیث ذیل ملاحظہ ہو۔ جس میں صاف لفظوں میں مقتدیوں کا ذکر موجود ہے۔ عن عبادة بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم في صلوٰة الفجر فقرأ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فثقلت علیه القراءة فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف إمامکم قلنا نعم هذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا إلابفاتحة الکتاب فإنه لا صلوٰة لمن لم یقراء بھا۔ (أبوداود، ج1، ص: 119، ترمذي، ج1، ص: 41 وقال حسن) حضرت عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ (نمازسے) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے (قرآن پاک سے کچھ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور حضرت امام ترمذی ؒ نے اس کو حسن کہاہے۔ اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں: والعمل علی هذا الحدیث في القراءة خلف الإمام عند أکثر أهل العلم من أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم والتابعین وهو قول مالك ابن أنس وابن المبارك والشافعي وأحمد وإسحاق یرون القراءة خلف الإمام۔ (ترمذي، ج1، ص: 41) یعنی امام کے پیچھے (سورۃ فاتحہ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث (عبادہ رضی اللہ عنہ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک (شاگرد امام ابوحنیفہ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق (بھی) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔ امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں: هذاالحدیث نص صریح بأن قراءة الفاتحة واجبة علی من صلی خلف الإمام سواءجهرالإمام باالقراءة أوخافت بها و إسنادہ جید لا طعن فیه۔ (مرعاة، ج1، ص: 619) یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میںطعن کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس بارے میں دوسری دلیل یہ حدیث ہے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ» ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ. فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ؟ فَقَالَ: «اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ» ؛ فإنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَالَ اللهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ الحدیث۔ (صحیح مسلم، ج1، ص: 169) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تووہ نماز ناقص ہے (مردہ) ناقص ہے (مردہ) ناقص ہے (مردہ) پوری نہیں ہے۔ جضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ لوگ امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ (تب بھی پڑھیں) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا (ہاں) اس کو آہستہ پڑھاکرو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ میں نے نماز کو اپنے اوربندے کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کردیاہے۔ (آخر تک) اس حدیث میں سورۃ فاتحہ ہی کو نماز کہا گیاہے۔ کیونکہ نماز کی اصل روح سورۃ فاتحہ ہی ہے۔ دوحصوں میں بانٹنے کا مطلب یہ کہ شروع سورت سے إیاك نستعین تک مختلف طریقوں سے اللہ کی حمد وثناہے۔ پھر آخر سورت تک دعائیں ہیں جو بندہ خدا کے سامنے پیش کررہاہے۔ اس طرح یہ سورت شریفہ دوحصوں میں منقسم ہے۔ امام نووی ؒ شرح مسلم، جلد1، ص: 170میں لکھتے ہیں: ففیه وجوب قراءة الفاتحة وأنها متعینة لایجزي غیرھا إلالعاجزعنها وهذا مذهب مالك والشافعي وجمهور العلماء من الصحابة والتابعین فمن بعدهم۔ یعنی اس حدیث (ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ) میں سورۃ فاتحہ کے فرض ہونے کا ثبوت ہے اورعاجز کے سوا سورۃ فاتحہ نماز میں متعین ہے۔ کوئی دوسری آیت اس کی جگہ کفایت نہیں کرسکتی اور یہی مذہب امام مالک اورامام شافعی اور جمہورصحابہ کرام اورتابعین اوران کے بعد علماءوائمہ عظام کاہے۔ اس حدیث میں سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرنماز کے لیے لفظ خداج کا استعمال کیاگیاہے۔ چنانچہ امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، جلد1، ص: 203 پر فہی خداج کا معنی لکھتے ہیں: معناہ ناقصة نقص فساد وبطلان یقول العرب أخدجت الناقة إذا ألقت ولدها وهو دم لم یستبن خلقه فهي مخدج والخداج اسم مبني عنه۔ (مرعاة، ج1، ص: 588) حاصل اس کا یہ ہے کہ جس نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ فاسداور باطل ہے۔ اہل عرب اخدجت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی اپنے بچے کو اس وقت گرادے کہ وہ خون ہو اور اس کی خلقت وپیدائش ظاہر نہ ہوئی ہو۔ اوراسی سے لفظ خداج لیا گیاہے۔ ثابت ہوا کہ خداج وہ نقصان ہے جس سے نماز نہیں ہوتی اوراس کی مثال اونٹنی کے مردہ بچہ جیسی ہے۔ اقرابہا فی نفسک اس کا معنی دل میں تدبر وتفکر اورغورکرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان کے ساتھ آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھا کر۔ امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں: والمراد بقوله اقرأ بها في نفسك أن یتلفظ بها سرا دون الجهر بها ولایجوز حمله علی ذکرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان علی أن ذلك لایسمی قراءة ولإجماع أهل العلم علی أن ذکرها بقلبه دون التلفظ بها لیس بشرط ولامسنون ولایجوز حمل الخبر علی مالا یقول به أحد ولایساعدہ لسان العرب۔ (کتاب القراءت، ص: 17) یعنی اس قول (اقرأ بها في نفسك) سے مراد یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ پڑھ اور اس کو ذکر قلب یعنی تدبر و تفکر و غور پر محمول کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اہل لغت کا اس پراجماع ہے کہ اس کو قراۃ نہیں کہتے اوراہل علم کا اس پر بھی اجماع ہے کہ زبان سے تلفظ کئے بغیر صرف دل سے ذکر کرنا نماز کی صحت کے لیے نہ شرط ہے اورنہ ہی سنت۔ لہٰذا حدیث کو ایسے معنی پر حمل کرنا جس کا کوئی بھی قائل نہیں اورنہ ہی لغت عرب اس کی تائید کرے جائز نہیں۔ تفسیرجلالین، جلد1، ص: 148مصری میں ﴿واذکر ربك في نفسك﴾ کا معنی لکھاہے: أي سرا یعنی اللہ تعالیٰ کو زبان سے آہستہ یادکر۔ امام نووی ؒ شرح مسلم، جلد1، ص: 170 اقرأ بها في نفسك کا معنی لکھتے ہیں: فَمَعْنَاهُ اقْرَأْهَا سِرًّا بِحَيْثُ تُسْمِعُ نَفْسَكَ وَأَمَّا مَا حَمَلَهُ عَلَيْهِ بَعْضُ الْمَالِكِيَّةِ وَغَيْرُهُمْ أَنَّ الْمُرَادَ تَدَبُّرُ ذَلِكَ وَتَذَكُّرُهُ فَلَا يُقْبَلُ لِأَنَّ الْقِرَاءَةَ لَا تُطْلَقُ إلا على حركةاللسان بحيث يسمع نفسه۔ اورحدیث میں قرات (پڑھنے) کا حکم ہے۔ لہٰذا جب تک مقتدی فاتحہ کو زبان سے نہیں پڑھے گا، اس وقت تک حدیث پر عمل نہیں ہوگا۔ ہدایہ، جلد1، ص: 98 میں ہے: لأن القراءة فعل اللسان۔ کیونکہ قراۃ (پڑھنا) زبان کا کام ہے۔ کفایہ، جلد1، ص: 64 میں ہے: فیصلي السامع في نفسه أي یصلي بلسانه خفیا یعنی جب خطیب آیت ﴿یآیها الذین آمنوا صلوا علیه وسلموا تسلیما﴾(الاحزاب: 56) پڑھے توسامعین کو چاہئیے کہ اپنی زبان سے آہستہ درود پڑھ لیں۔ یعنی فی نفسہ کا معنی زبان سے آہستہ اورپوشیدہ پڑھنا ہے۔ ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ فی نفسک کا معنی دل میں تدبر اور غوروفکر کرنا، لغت اوراہل علم اور خودفقہاءکی تصریحات کے خلاف ہے اورصحیح معنی یہ ہے کہ زبان سے آہستہ پڑھا کراوریہی حدیث کا مقصود ہے۔ تیسری حدیث یہ ہے: عن عائشة رضي اللہ عنها قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من صلی صلوٰة لم یقرأ افیها بفاتحة الکتاب فهي خداج غیر تمام۔ (جزءالقرات، ص: 8، دہلی، کتاب القرات، ص: 31) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے پوری۔ ”خداج کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے۔ اس بارے میں چوتھی حدیث یہ ہے: عن أنس رضی اللہ عنه أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم صلی بأصحابه فلما قضی صلوٰته أقبل علیهم بوجهه فقال أتقرءون في صلوٰتکم خلف الإمام والإمام یقرأ فسکتوا فقال لها ثلاث مرات فقال قائل أوقائلون إنا لنفعل قال فلا تفعلوا ولیقرأ أحدکم فاتحة الکتاب في نفسه۔ (کتاب القراءت، ص: 48، 49، 50، 55، جزءالقراءة دہلي، ص: 28) حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ جب امام پڑھ رہا ہو توتم بھی اپنی نماز میں امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ پھر ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا، ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھا کرے۔ اس حدیث سے امام کے پیچھے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فرضیت صاف ثابت ہے۔ اس بارے میں مزیدوضاحت کے لیے پانچویں حدیث یہ ہے: عن أبي قلابة أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال لعل أحدکم یقرأ خلف الإمام والإمام یقرأ فقال رجل إنالنفعل ذلك قال فلا تفعلوا ولکن لیقرأ أحدکم بفاتحة الکتاب۔ (کتاب القراءة، ص: 50) ابوقلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، شاید جب امام پڑھ رہا ہو تو ہر ایک تمہارا امام کے پیچھے پڑھتاہے۔ ایک آدمی نے کہا بے شک ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو اورلیکن ہر ایک تمہارا (امام کے پیچھے) سورۃ فاتحہ پڑھا کرے۔ ان احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ ضروری ہے۔ کیونکہ ان احادیث میں خاص لفظ فاتحہ اورخلف امام موجود ہے اورمزید وضاحت کے لیے چھٹی حدیث یہ ہے: عن عبداللہ بن سوادة القشیري عن رجل من أهل البادیة عن أبیه وکان أبوہ أسیرا عند رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال سمعت محمدا صلی اللہ علیه وسلم قال لأصحابه تقرؤن خلفي القرآن فقالوا یارسول اللہ نهذہ هذا قال لا تقرءوا إلابفاتحة الکتاب۔ (کتاب القراءة، ص: 53) عبداللہ بن سوادۃ ایک دیہاتی سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور اس کا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسیر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو فرماتے ہوئے سنا۔ کیا تم نماز میں میرے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا۔ اے اللہ کے رسول الله ﷺ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں: وتواترالخبرعن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لاصلوٰة إلابقراءة أم القرآن۔ (جزءالقراءة، ص: 4، دہلی) یعنی اس بارے میں کہ بغیرسورۃ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر (یعنی جم غفیر روایت کرتے ہیں) کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔ امام عبدالوہاب شعرانی میزان کبریٰ، جلد1، ص: 166، طبع دہلی میں فرماتے ہیں: من قال بتعین الفاتحة وإنه لایجزي قراءة غیرها قددار مع ظاهرالأحادیث التي کادت تبلغ حدا لتواتر مع تائید ذلك بعمل السلف والخلف۔ یعنی جن علماءنے سورۃ فاتحہ کو نماز میںمتعین کیاہے اورکہاکہ سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ اورپڑھنا کفایت نہیں کرسکتا۔ اولاً توان کے پاس احادیث نبویہ اس کثرت سے ہیں کہ تواتر کو پہنچنے والی ہیں۔ ثانیاً سلف وخلف (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین وائمہ عظام) کا عمل بھی تعین فاتحہ درنماز کی تائید کرتاہے۔ مسک الختام شرح بلوغ المرام، جلد1، ص: 219 مطبع نظامی میں ہے۔ ''وایں حدیث راشواہد بسیاراست۔ '' یعنی قراۃ فاتحہ خلف الامام کی حدیث کے شواہد بہت زیادہ ہیں۔ تفسیر ابن کثیر، ص: 12 میں ہے: والأحادیث في هذا الباب کثیرة۔ یعنی قراۃ فاتحہ کی احادیث بکثرت ہیں۔ ان ہی احادیث کثیرہ کی بناپر بہت سے محققین علمائے احناف بھی قراۃ خلف الامام کے قائل ہیں، جس کی تفصیل کے سلسلہ میں المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمدنہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے۔ چنانچہ علامہ موصوف لکھتے ہیں: لأبي حنیفة ومحمد قولان أحدھما عدم وجوبها علی المأموم بل ولاتسن وهذا قولهما القدیم وأدخله محمد في تصانیفه القدیمة وانتشرت النسخ إلی الأطراف وثانیها استحسانها علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتها عندالمخالفة الحدیث المرفوع لاتفعلوا إلابأم القرآن وفي روایة لاتقرءوا بشيئ إذا جهرت إلا بأم القرآن وقال عطاء کانوا یرون علی المأموم القراءة في ما یجهر فیه الإمام وفي ما یسرفرجعا من قولهما الأول إلی الثاني احتیاطا انتهیٰ کذا في غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔ خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ اورامام محمد ؒ کے دوقول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوران دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمد ؒ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیاہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کونماز سری میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآوازبلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاء ؒ نے کہا کہ لوگ (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم) کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کوپڑھنا چاہئیے۔ پس امام ابوحنیفہ ؒ اورامام محمد ؒ نے احتیاطاً اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔ لواب بقول علامہ شعرانی امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہوا بلکہ مستحسن ومستحب۔ اے ناظرین: جس حدیث کو علامہ شعرانی نے ذکرکیاہے اورجس کی وجہ سے امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے قول سے رجوع کرنا لکھاہے۔ اسی حدیث اوراس کے مثل اوراحادیث صحیحہ کو دیکھ کرخود مذہب حنفی کے بڑے بڑے فقہاء وعلماءامام ابوحنفیہ ؒ کے قول قدیم کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل وفاعل ہوگئے۔ بعض تونماز سری اور جہری دونوں میں اور بعض فقط نماز سری میں۔ علامہ عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں: بعض أصحابنا یستحسنون ذلك علی سبیل الاحتیاط في جمیع الصلوات وبعضهم في السریة فقط وعلیه فقهاءالحجاز والشام (کذا فی غیث الغمام، ص: 156) یعنی بعض فقہائے حنفیہ ہرنماز میں خواہ سری ہو خواہ جہری امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کواحتیاطاً مستحسن بتاتے ہیں اوربعض فقہاءفقط نماز سری میں اورمکہ اورمدینہ اورملک شام کے فقہاءکا اسی پر عمل ہے۔ عمدۃ القاری، ص: 173میں مولانا عبدالحئی صاحب لکھتے ہیں: وروي عن محمد أنه استحسن قراءة الفاتحة خلف الإمام في السریة و روي مثلي عن أبي حنیفة صریح به في الهدایة والمجتبیٰ شرح مختصر القدروي وغیرهما وهذا هو مختار کثیرمن مشائخنا۔ یعنی امام محمد ؒ سے مروی ہے کہ انھوں نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کو نماز سری میں مستحسن بتایاہے اوراسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیاگیاہے۔ اوراسی کو ہمارے بہت سے مشائخ نے اختیارکیاہے۔ ہدایہ میں ہے ویستحسن علی سبیل الاحتیاط في مایروی عن محمد۔ یعنی امام محمد ؒ سے مروی ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا احتیاطاً مستحسن ہے۔ مولوی عبدالحی صاحب امام الکلام میں لکھتے ہیں: وهو وإن کان ضعیفاً روایة لکنه قوي درایة ومن المعلوم المصرح في غنیة المستملي شرح منیة المصلي وغیرہ أنه لایعدل عن الروایة إذا وافقتها درایة۔ یعنی امام محمد ؒ کا یہ قول کہ ”امام کے پیچھے الحمد پڑھنا مستحسن ہے“ اگرچہ روایتاً ضعیف ہے لیکن دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔ اور غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ جب روایت دلیل کے موافق ہو تواس سے عدول نہیں کرناچاہئیے اورعلامہ شعرانی کے کلام سے اوپر معلوم ہوچکاہے کہ امام محمد ؒ نیز امام ابوحنیفہ ؒ کابھی اخیرقول ہے۔ اور ان دونوں اماموں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کرلیاہے۔ اورشیخ الاسلام نظام الملۃ والدین مولانا عبدالرحیم جوشیخ التسلیم کے لقب سے مشہور ہیں اوررئیس اہل تحقیق کے نام سے بھی آپ یادکئے گئے ہیں اورباتفاق علماءماوراءالنہر وخراسان مذہب حنفی کے ایک مجتہد ہیں۔ آپ باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام ابوحنیفہ کے مسلک قدیم کو چھوڑکر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب کہتے ہیں اورخود بھی پڑھتے اور فرماتے تھے: لوکان في فمي یوم القیامة جمرة أحب إلي من أن یقال لاصلوٰة لك۔ یعنی اگرقیامت کے روز میرے منہ میں انگارا ہو تومیرے نزدیک یہ بہتر ہے اس سے کہ کہا جائے کہ تیری تونماز ہی نہیں ہوئی۔ (إمام الکلام، ص: 20) اے ناظرین! یہ حدیث کہ جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی نہایت صحیح ہے اوریہ حدیث جو شخص امام کے پیچھے پڑھے اس کے منہ میں قیامت کے روز انگارا ہوگا موضوع اورجھوٹی ہے۔ شیخ التسلیم نے اپنے قول میں پہلی حدیث کے صحیح ہونے اوردوسری حدیث کے موضوع اورجھوٹی ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔ اورامام ابوحفص کبیر ؒ جومذہب حنفی کے ایک بہت بڑے مشہور فقیہ ہیں اورامام محمد کے تلامذہ کبار میں سے ہیں۔ آپ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ یعنی یہ بھی نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے اوران کے سوا اور بہت سے فقہاءنے بھی اسی مسلک کو اختیار کیاہے۔ جیسا کہ گزر چکاہے اورمشائخ حنفیہ اورجماعت صوفیہ کے نزدیک بھی یہی مسلک مختار ہے۔ ملاجیون نے تفسیراحمدی میں لکھاہے: فإن رأیت الطائفة الصوفیة والمشائخین تراهم یستحسنون قراءة الفاتحة للموتم کما استحسنه محمد أیضا احتیاطاً فیماروي عنه انتهیٰ۔ یعنی اگرجماعت صوفیہ اورمشائخین حنفیہ کو دیکھوگے توتمھیں معلوم ہوگا کہ یہ لوگ امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن بتاتے تھے۔ جیساکہ امام محمد احتیاطاً استحسان کے قائل تھے۔ اورمولانا شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی نے بھی باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اولیٰ الاقوال بتایاہے۔ دیکھو حجۃ اللہ البالغۃ اور جناب شاہ صاحب کے والدماجد مولاناشاہ عبدالرحیم صاحب ؒ بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب ”انفاس العارفین“ میں اپنے والد ماجد کے حال میں لکھتے ہیں کہ وہ (یعنی مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب ؒ) اکثرمسائل فروعیہ میں مذہب حنفی کے موافق تھے۔ لیکن کسی مسئلہ میں حدیث سے یاوجدان سے مذہب حنفی کے سوا کسی اورمذہب کی ترجیح اورقوت ظاہر ہوتی تو اس صورت میں حنفی مذہب کا مسئلہ چھوڑدیتے۔ ازاں جملہ ایک یہ ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھتے تھے اورنماز جنازہ میں بھی سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔ (غیث الغمام، ص: 174) اورمولانا شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ نے بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی فرضیت کوترجیح دی ہے۔ چنانچہ آپ ایک استفتا کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ مقتدی کو امام کے پیچھے الحمد پڑھنا امام ابوحنیفہ کے نزدیک منع ہے اورامام محمد کے نزدیک جس وقت امام آہستہ پڑھے جائز ہے۔ اورامام شافعی کے نزدیک بغیر پڑھے الحمد کے نماز جائز نہیں۔ اورنزدیک اس فقیر کے بھی قول امام شافعی کا ترجیح رکھتاہے اور بہترہے کیونکہ اس حدیث کے لحاظ سے نہیں نماز ہوتی مگر سورۃ فاتحہ سے نماز کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اورقول امام ابوحنیفہ کا بھی جابجا وارد ہے کہ جس جگہ حدیث صحیح وارد ہو اورمیرا قول اس کے خلاف پڑے تومیرے قول کو چھوڑدینا چاہئیے اورحدیث پر عمل کرناچاہئیے۔ انتهیٰ مترجماً بقدرالحاجة۔ اورمولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی نے اس مسئلہ میں خاص ایک رسالہ تصنیف کیاہے جس کا نام امام الکلام ہے اس رسالہ میں آپ نے باوجود حنفی ہونے کے یہ فیصلہ کیاہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ومستحب ہے اور نماز جہری میں بھی سکتات امام کے وقت۔ چنانچہ رسالہ مذکورہ ص: 156میں لکھتے ہیں: فاذن ظهرحق الظهور إن أقوی المسالك سلك علیها أصحابنا هومسلك استحسان القراءة في السریة کما هو روایة عن محمد بن الحسن واختارها جمع من فقهاءالزمن وأرجورجاء موثقا أن محمدا لما جوز القراءة في السریة واستحسنها لابد أن یجوز القراءة في الجهریة في السکتات عند وجدانها لعدم الفرق بینه و بینه انتهیٰ۔ مختصرا یعنی اب نہایت اچھی طرح ظاہرہوگیا کہ جن مسلکوں کو ہمارے فقہائے حنفیہ نے اختیارکیاہے، ان سب میں زیادہ قوی یہی مسلک ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ہے۔ جیسا کہ روایت ہے امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے اوراسی مسلک کو فقہائے زمانہ کی ایک جماعت نے اختیار کیاہے اورمیں (یعنی مولوی عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ) امید واثق رکھتاہوں کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے جب نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن کہا ہے توضرور جہری میں بھی سکتات امام کے وقت مستحسن ہونے کے قائل ہوں گے۔ کیونکہ نماز جہری میں سکتات امام کی حالت میں اورنماز سری میں کچھ فرق نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف نے اپنا یہی فیصلہ سعایہ شرح وقایہ میں بھی لکھاہے۔ ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں یہ لکھاہے کہ نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہے، اورنماز جہری میں منع ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے ملاصاحب کے اس قول کورد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ میں لکھتے ہیں کہ ملاعلی قاری کا یہ قول ضعیف ہے، کیاملا علی قاری کو یہ نہیں معلوم ہے کہ عبادہ ؓ کی حدیث سے نماز جہری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کا جواز صراحتاً ثابت ہے۔ فتح القدیر وغیرہ کتب فقہ میں لکھاہے کہ منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے اس کو بھی رد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ، ص: 304 میں لکھتے ہیں: وکذا ضعف ما في فتح القدیر وغیرہ أن الأخذ بالمنع أحوط فإنه لامنع ههنا عند تدقیق النظر۔ یعنی فتح القدیر وغیرہ میں جو یہ لکھاہے کہ منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے، سویہ ضعیف ہے۔ کیونکہ دقیق نظر سے دیکھا جائے تویہاں منع کی کوئی روایت ہی نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف تعلیق الممجد، ص: 101 میں لکھتے ہیں: لم یرد في حدیث مرفوع صحیح النهي عن قراءة الفاتحة خلف الإمام وکل ماذکروہ مرفوعا فیه إما لاأصل له وإما لا یصح انتهی۔ یعنی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی ممانعت کسی حدیث مرفوع صحیح میں وارد نہیں ہوئی اور ممانعت کے بارے میں علمائے حنفیہ جس قدر مرفوع حدیثیں بیان کرتے ہیں یاتو ان کی کچھ اصل ہی نہیں ہے یاوہ صحیح نہیں ہیں۔ اے ناظرین! دیکھو اورتو اورخودمذہب حنفی کے بڑے فقہاءوعلماءنے قرات فاتحہ خلف الامام کی حدیثوں کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ صاحب ؒ کے مسلک مشہور کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن ومستحب بتایاہے اورخود بھی پڑھاہے۔ بعض فقہاءنے ہرنماز میں سری ہو یا جہری اور بعض نے فقط سری میں۔ اوربقول علامہ شعرانی خودامام ابوحنیفہ صاحب اورامام محمد نے بھی ان ہی حدیثوں کی وجہ سے اپنے پہلے قول سے رجوع کرکے نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب ومستحسن بتایاہے اور مولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی حنفی نے اس مسئلہ میں جو کچھ فیصلہ کیااور لکھاہے۔ آپ لوگوں نے اس کو بھی سن لیا۔ مگربااین ہمہ ابھی تک بعض حنفیہ کا یہی خیال ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا ہرنماز میں سری ہو خواہ جہری ناجائز وحرام ہے۔ اور امام صاحب کے اسی مسلک مشہور کو (جس کی کیفیت مذکورہوچکی ہے) شاہ راہ سمجھ کر اسی پر چلے جاتے ہیں۔ خیراگر اسی مسلک کو شاہ راہ سمجھتے تھے اور اسی پر چپ چاپ چلے جاتے۔ لیکن حیرت تویہ ہے کہ ساتھ اس کے قرات فاتحہ خلف الامام کی ان حدیثوں کا بھی صاف انکار کیاجاتاہے۔ جن کی وجہ سے اورتو اورخودمذہب حنفی کے ائمہ وفقہاءوعلماءنے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اختیار کرلیا۔ یااگر انکارنہیں کیاجاتاہے توان کی مہمل اورناجائز تاویلیں کی جاتی ہیں۔ اورزیادہ حیرت تو ان علمائے حنفیہ سے ہے جوروایات موضوعہ وکاذبہ اورآثار مختلفہ وباطلہ کو اپنی تصنیفات میں درج کرکے اوربیان کرکے اپنے عوام اورجاہل لوگوں کو فتنے میں ڈالتے ہیں اوران کی زبان سے اورتواور خود اپنے ائمہ وفقہاءکی شان میں کلمات ناشائستہ اورالفاظ ناگفتہ بہ نکلواتے ہیں۔ کوئی جاہل بکتاہے کہ امام کے پیچھے جوالحمد پڑھے گا وہ گنہگار ہے۔ والعیاذ باللہ۔ ﴿کبرت کلمة تخرج من أفواههم﴾(الکهف: 5) ۔ اگرچہ غور سے دیکھاجائے تو ان جاہلوں کا یہ قصورنمبردوم میں ہے اور نمبراول کا قصور انھیں علماءحنفیہ کا ہے، جو روایات کاذبہ و موضوعہ کو ذکرکرکے ان جاہلوں کو فتنے میں ڈالتے اوران کی زبان سے اپنے بزرگان دین کے منہ میں آگ وپتھر بھرواتے ہیں اورجو چاہتے ہیں ان سے کہلواتے ہیں۔ اگریہ روایات کاذبہ وموضوعہ کو بیان نہ کرتے یابیان کرتے مگران کا کذب وموضوع ہونا بھی صاف صاف ظاہر کرتے اورساتھ اس کے اس ضمن کو بھی واضح طور پر بیان کرتے جو اوپر ہم نے بیان کیا ہے توان جاہلوں کی زبان سے ایسے ناگفتہ بہ کلمات نہ نکلتے۔ آنچہ مے پرسی کہ خسرو را کہ کشت غمزئہ تو چشم تو ابروئے تو (تحقیق الکلام، حصہ اول، ص: 7) ہمارے محترم علمائے احناف کے پاس بھی کچھ دلائل ہیں جن کی تفصیلی حقیقت معلوم کرنے کے لیے محدث کبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری کی مشہور کتاب تحقیق الکلام کا مطالعہ کیا جاسکتاہے۔ یہاں ہم اجمالی طور پر ان دلائل کی حقیقت حضرت مولاناعبدالحئی حنفی لکھنوی مرحوم کے لفظوں میں پیش کردینا چاہتے ہیں۔ موصوف علمائے احناف کے چوٹی کے عالم ہیں۔ مگراللہ پاک نے آپ کوجو بصیرت عطا فرمائی وہ قابل صد تعریف ہے۔ چنانچہ آپ نے مندرجہ ذیل بیان میں اس بحث کا بالکل خاتمہ کردیاہے۔ آپ فرماتے ہیں: لم یرد في حدیث مرفوع صحیح النهي عن قراءة الفاتحة خلف الإمام وکل ماذکروہ مرفوعا فیه إما لاأصل له وإما لا یصح۔ (تعلیق الممجد علی موطأ إمام مالك، ص: 101، طبع یوسفي) یعنی کسی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی نہی (منع) وارد نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں علمائے حنیفہ جس قدردلائل ذکر کرتے ہیں یاتو وہ بالکل بے اصل اورمن گھڑت ہیں، یا وہ صحیح نہیں۔ فظهر أنه لایوجد معارض لأحادیث تجویزالقراءة خلف الإمام مرفوعا۔ (تعلیق الممجد، ص: 101 طبع یوسفي) یعنی امام کے پیچھے (سورہ فاتحہ) پڑھنے کی احادیث کے معارض ومخالف کوئی مرفوع حدیث نہیں پائی جاتی۔ حنفیہ کے دلائل کے جواب ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وبالجملة لایظهر لأحادیث تجویزالقراءة خلف الإمام معارض یساویها في الدرجة ویدل علی المنع۔ (تعلیق الممجد، ص: 101) یعنی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے (سورۃ فاتحہ) پڑھنے کی احادیث کے درجہ کی کوئی معارض ومخالف حدیث نہیں ہے اورنہ ہی (امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے) منع پر کوئی حدیث دلالت کرتی ہے۔ امید ہے کہ ناظرین کرام کے اطمینان خاطرکے لیے اسی قدرکافی ہوگا۔ اپنا مقصد صرف یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ خلف الامام پڑھنے والوں سے حسد بغض رکھنا، ان کو غیرمقلد، لامذہب کہنا یہ کسی طرح بھی زیبانہیں ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے فروعی مباحث میں وسعت قلبی سے کام لے کر باہمی اتفاق کے لیے کوشش کی جائے جس کی آج اشد ضرورت ہے۔ وباللہ التوفیق۔ نوٹ: کچھ لوگ آیت شریفہ ﴿وإذاقرئ القرآن﴾ سے سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے کی دلیل پکڑتے ہیں حالانکہ یہ آیت مکہ شریف میں نازل ہوئی جب کہ نماز باجماعت کا سلسلہ بھی نہ تھا، لہٰذا استدلال باطل ہے۔ تفصیل مزید کے لیے ثنائی ترجمہ والے قرآن مجید کے آخر میں مقالہ ثنائی کا مطالعہ کیاجائے۔ (راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 756
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:756
756. حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کی نماز ہی نہیں ہوئی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:756]
حدیث حاشیہ: (1) یہ روایت صحیحین، سنن اربعہ، مسند امام احمد،سنن دار قطنی، مسند ابی عوانہ، سنن بیہقی، سنن دارمی، کتاب القراءۃ، جزءالقراءۃ اور احادیث کی تقریبا تمام کتابوں میں موجود ہے بلکہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ ام القرآن، یعنی فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (جزءالقراءة، حدیث: 27) اس حدیث کے متعلق علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے: اس حدیث سے عبداللہ بن مبارک، اوزاعی، مالک، شافعی، احمد، اسحاق، ابو ثور اور داود ظاہری ؒ نے تمام نمازوں میں فاتحہ خلف الامام پڑھنے کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ (عمدةالقاري: 644/4) علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے پیش نظر سورۂ فاتحہ امام اور مقتدی پر ہر نماز میں پڑھنا واجب ہے۔ (صحیح البخاري بشرح الکرماني: 124/2) واضح رہے کہ قراءت فاتحہ نماز کے ارکان میں سے ہے اور رکن ایسی چیز کو کہتے ہیں کہ واجب التعمیل کام اس کے بغیر مکمل نہ ہو۔ اور رکن کے نہ ہونے سے شریعت کی نظر میں اس کام کا کوئی اعتبار نہ ہو۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ارکان نماز کے متعلق لکھا ہے کہ جسے رسول اللہ ﷺ نے لفظ رکن سے ذکر کیا ہو، جیسے آپ نے فرمایا: ”فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ “ نیز آپ کا فرمان ہے کہ آدمی کی نماز جائز نہیں جب تک وہ رکوع اور سجود میں اپنی پشت کو سیدھا نہ کرے اور جسے شارع نے نماز کہا ہے، نماز کے لیے اس کے رکن ہونے کی بڑی زبردست تنبیہ ہے۔ (حجة اللہ البالغة: 4/2) پھر یہ بھی قاعدہ ہے کہ لائے نفی جنس کی خبر جب محذوف ہوتو اس میں وجود کی نفی مراد ہوتی ہے الایہ کہ وہاں کوئی قرینۂ صارفہ موجود ہو۔ حدیث مذکور میں بھی لانفی جنس کے لیے ہے جس کے معنی ہیں کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز کا سرے سے وجود ہی برقرار نہیں رہتا۔ اسے لائے نفی کمال قرار دینا محض سینہ زوری ہے۔ (2) حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی مذکورہ روایت مختصر ہے۔ مفصل روایت میں امام کے پیچھے جہری نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کی صراحت ہے، چنانچہ عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ ہم نماز فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے۔ آپ نے قرآن پڑھا تو آپ پر قراءت کرنا بھاری ہوگیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟“ ہم نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا۔ “(جامع الترمذی، الصلاة، حدیث: 311) اس روایت کو امام بیہقی ؒ نے صحیح جبکہ امام ترمذی اور دار قطنی نے حسن کہا ہے۔ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے دوفائدے حاصل ہوتے ہیں: ٭ امام کے پیچھے قرآن کریم پڑھنے کی اجازت نہیں۔ ٭ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ یہ بات واضح اور ظاہر ہے، لہٰذا اس کے متعلق تردد مناسب نہیں۔ (السیل الجرار، طبع دار ابن حزم، ص: 215/2) اس مفصل روایت پر ایک اعتراض ہے کہ اس میں محمد بن اسحاق نامی راوی ناقابل اعتبار ہے، اس لیے یہ روایت قابل حجت نہیں۔ اس اعتراض کے متعلق ہمارے مندرجہ ذیل ملاحظات ہیں: ٭ابن اسحاق کے متعلق امام ابو زرعہ دمشقی فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق وہ آدمی ہیں جن سے روایت لینے میں بڑے بڑے اہل علم متفق ہیں۔ اہل حدیث نے ان کے متعلق جانچ پڑتال کی تو انھیں صدوق پایا۔ (تھذیب التھذیب: 42/9) ٭جمہور ائمۂ حدیث نے ابن اسحاق کو ثقہ اور حسن الحدیث قرار دیا ہے، لہٰذا ان پر جرح ناقابل التفات ہے۔ ابن اسحاق پر اعتراض کرنے والوں نے متعدد مسائل میں ابن اسحاق سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے، چنانچہ بطور مثال چند ایک مرویات کا حوالہ پیش خدمت ہے۔ ٭ چور کا ہاتھ کاٹنے پر اتفاق ہے لیکن کتنی مالیت کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے؟امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اگر دس درہم مالیت کی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ اس سلسلے میں بطور دلیل جو روایت پیش کی ہے اس میں محمد بن اسحاق موجود ہے۔ (شرح معاني الآثار: 361/3) نماز فجر کو خوب روشن وقت میں پڑھنے کے متعلق جو حدیث پیش کی جاتی ہے، جسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے وہ ابن اسحاق کے واسطے سے مروی ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 154) (3) حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی مذکورہ روایت متعدد ایسے طرق سے مروی ہے جس میں ابن اسحاق راوی نہیں ہے، مثلا: ٭ امام دار قطنی، امام حاکم اور امام بیہقی رحمہم اللہ نے یہ روایت بواسطہ سعید بن عبدالعزیز عن مکحول ذکر کی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 165/2) ٭امام بیہقی ؒ نے یہ روایت بواسطہ العلا بن حارث عن مکحول ذکر کی ہے۔ (کتاب القراءة) ٭امام بیہقی نے یہ حدیث بواسطہ زید بن واقد عن مکحول بیان کی ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقی: 165/2) اس قسم کے استنادی مباحث کا مطالعہ کرنے کے لیے ''توضيح الكلام في وجوب القراءة خلف الإمام'' مفید رہے گی۔ (4) فاتحہ خلف الامام کے متعلق دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات حسب ذیل ہیں: ٭حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ”جب امام قراءت کررہا ہوتا ہے تو کیا تم نماز میں قراءت کرتے ہو؟“ وہ سب خاموش رہے۔ آپ نے تین مرتبہ یہ سوال دہرایا، پھر انھوں نے کہا کہ ہاں!ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ” ایسا مت کیا کرو بلکہ ہر ایک اپنے جی میں صرف فاتحہ پڑھا کرے۔ “(السنن الکبرٰی للبیھقي: 166/2) امام ابن حبان ؒ نے اس روایت کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ (مواردالظمآن، باب القراءة في الصلاة: 2/174،173، حدیث: 126) ٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی وہ (نماز) ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے پوری نہیں۔ “ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں (پھر بھی پڑھیں؟) تو ابو ہریرہ نے کہا: ہاں، تو اس کو اپنے جی میں پڑھ۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 878 (395) قراءة في النفس کا معنی زبان کے ساتھ آہستہ پڑھنا ہے، چنانچہ ملا علی قاری حنفی ؒ لکھتے ہیں کہ اس کا معنی ہے: آہستہ پڑھ، بلند آواز سے نہ پڑھ۔ (مرقاةالمفاتیح: 2/579،578) ٭محمد بن ابو عائشہ رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شاید تم اس وقت قراءت کرتے ہو جب امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟ “ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہاں، ہم پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھا کرو۔ “(مسندأحمد: 236/4) علامہ ہیثمی ؒ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ مسند امام احمد کی اس روایت کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔ (مجمع الزوائد: 111/2) حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (تلخیص الحبیر: 231/1) ان کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جنھیں ہم اندیشۂ طوالت کے پیش نظر چھوڑ رہے ہیں۔ والله المستعان۔ ان احادیث کے مطابق جمہور علمائے حدیث کا موقف ہے کہ مقتدی کے لیے سورۂ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ مقتدی کے لیے امام کی قراءت ہی کافی ہے، اسے فاتحہ پڑھنا ضروری نہیں، حالانکہ مقتدی کو امام کی وہ قراءت کافی ہوتی ہے، جو فاتحہ کے علاوہ ہو کیونکہ ان احادیث ک پیش نظر فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، خواہ وہ امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 756