ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں“۔ راوی ابوسائب کہتے ہیں: اس پر میں نے کہا: ابوہریرہ! کبھی کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا کروں!) تو انہوں نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ۱؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دی ہے، اس کا نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ بھی ہے جو وہ مانگے“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑھو: بندہ «الحمد لله رب العالمين» کہتا ہے تو اللہ عزوجل کہتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی، بندہ «الرحمن الرحيم» کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری توصیف کی، بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی، بندہ «إياك نعبد وإياك نستعين» کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر بندہ «اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: یہ سب میرے بندے کے لیے ہیں اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ۲؎“۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 821]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الصلاة 11 (395)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة 2 (2953)، سنن النسائی/الافتتاح 23 (910)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 11 (838)، (تحفة الأشراف: 14935، 14045)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 9 (39)، مسند احمد (2/241، 250، 285، 290، 457، 487) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نماز سے مراد سورہ فاتحہ ہے، تعظیماً کل بول کر جزء مراد لیا گیا ہے۔ ۲؎: جو لوگ بسم اللہ کو سورۃ فاتحہ کا جزء نہیں مانتے ہیں اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بسم اللہ کے سورۃ فاتحہ کے جزء ہونے کی صورت میں اس حدیث میں اس کا بھی ذکر ہونا چاہئے جیسے اور ساری آیتوں کا ذکر ہے۔
في كل الصلاة يقرأ فما أسمعنا رسول الله أسمعناكم وما أخفى منا أخفينا منكم فقال له رجل إن لم أزد على أم القرآن فقال إن زدت عليها فهو خير وإن انتهيت إليها أجزأت عنك
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 821
821۔ اردو حاشیہ: ➊ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز بالکل ناقص اور ناتمام رہتی ہے، جس کی تعبیر دوسری احادیث میں کچھ یوں ہے: «لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب»[صحيح بخاري۔ حديث 756۔ وصحيح مسلم۔ حديث 394] اسماعیلی کی روایت میں جناب سفیان سے مروی ہے: «لا تجزي صلوة لايقرا فيها بفاتحة الكتاب»[سنن دار قطني۔ حديث 1212] ”جس نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ کافی نہیں ہوتی“ فتح الباری، ابن خذیمہ، ابن حبان اور احمد میں ہے: «لا تقبل صلوة لا يقرا فيها بام القران»(فتح الباری۔ شرح حدیث 756) جس نماز میں ام القرآن فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ قبول نہیں ہوتی، اس قسم کے مختلف الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے۔ اس کا پڑھنا فرض اور واجب ہے۔ الا یہ کہ کوئی پڑھنے سے عاجز ہو۔ ➋ اس حکم میں تمام قسم کی نمازیں (فرض، نفل، جنازہ، عید اور کسوف وغیرہ) اور تمام طرح کے نمازی (منفرد، امام، مقتدی، حاضر اور مسافر) شامل ہیں۔ ➌ نفس میں پڑھنا اس سے مراد آواز نکالے بغیر زبان سے پڑھنا ہے، صرف ان الفاظ کا خیال اور تصور صحیح نہیں، اسے کسی طرح قراءت (پڑھنا) نہیں کہا جاتا۔ نیز یہ مسئلہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مذہب اور رائے محض نہیں۔ بلکہ ان کا استدلال صریح اور صحیح فرمان نبوی سے ہے۔ ➍ سورہ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کرتے ہوئے صرف اسی کی تقسیم کی گئی ہے اور اس تقسیم میں بسم اللہ کو شمار نہیں کیا گیا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جزو نہیں ہے۔ ➎ امام کے پیچھے ہونے کا اشکال آج کا نیا اشکال نہیں ہے بلکہ تابعین کے دور سے ہے، مگر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کے پڑھنے کا فتویٰ اور اس کی دلیل پیش فرما کر تمام اوہام کا ازالہ فرما دیا ہے۔ نیز آیت کریمہ: «وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا»[اعراف۔ 104] ”جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو“ کا مفہوم بھی واضح کر دیا کہ آہستہ سے پڑھو یعنی آواز نہ نکاؤ، اس میں انصات بھی ہے اور قرأت پر عمل بھی، نیز حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تفعلوا الا بام القران» یعنی ”امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی قرأت کرو۔“ ➏ سورۃ فاتحہ نماز کی سب رکعات میں پڑھی جائے، جیسا کہ حضرت خلاد بن رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث «مسئي الصلواة» میں آیا کہ «ثم افعل ذلك فى صلوتك كلها»”اور پوری نماز میں ایسا ہی کرو۔“[صحيح بخاري۔ حديث 793وصحيح مسلم حديث 397]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 821
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 797
´ظہر کی قرآت کا بیان۔` عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”ہر نماز میں قرآت کی جاتی ہے تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بالجہر سنایا ہم نے بھی تمہیں (جہراً) سنا دیا اور جسے آپ نے چھپایا ہم نے بھی اسے تم سے چھپایا ۱؎۔“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 797]
797۔ اردو حاشیہ: ➊ مقصد یہ ہے کہ جو قرأت جہری تھی، ہم جہری کرتے ہیں اور جو سری تھی ہم بھی سری کرتے ہیں۔ ➋ امت کا اجماع ہے کہ فجر، مغرب، عشاء (پہلی دو رکعتیں) جمعہ، عید اور استسقاء میں قرأت جہری ہوتی ہے اور ظہر، عصر اور مغرب کی تیسری اور عشاء کی آخری دونوں رکعتوں میں سری۔ ➌ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین امت کا وہ پہلا عظیم طبقہ ہے، جس نے دین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا اور ان سے بعد کے لوگوں نے ان سے حاصل کیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 797
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 820
´جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ اعلان کر دوں کہ سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورت پڑھے بغیر نماز نہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 820]
820۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایات سنداً ضعیف ہیں۔ لیکن اس میں بیان کردہ باتیں دوسری روایات سے ثابت ہیں۔ یعنی منفرد شخص کے لئے سورت فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت یا قرآن سے کچھ حصہ پڑھنے کا حکم ہے۔ لیکن جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 820
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 971
´دن کی نمازوں میں قرأت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہر نماز میں قرآت ہے، تو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سنایا ہم تمہیں سنا رہے ہیں، اور جسے آپ نے ہم سے چھپایا ہم تم سے چھپا رہے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 971]
971 ۔ اردو حاشیہ: ➊ اشارہ ہے کہ نماز ظہر اور عصر میں آہستہ قرأت ہے۔ یہ نہیں کہ ان میں قرأت ہے ہی نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ دن کی نمازوں میں آہستہ قرأت کا راز شاید یہ ہے کہ دن میں شور و غل ہوتا ہے، جماعت بڑی ہو تو سماع مشکل ہو گا، جب کہ رات میں سکون ہوتا ہے، اس لیے رات کی نازوں میں قرأت بلند آواز سے ہوتی ہے۔ جس نماز میں زیادہ سکون ہوتا ہے، اس میں قرأت بھی طویل رکھی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋ حدیث کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہر رکعت میں قرأت ہے اگرچہ پہلی دو میں قرأت اونچی کی جاتی ہے اور آخری رکعتوں میں آہستہ تاکہ نماز یادہ لمبی نہ ہو جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 971
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث838
´امام کے پیچھے قرات کا حکم۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص و ناتمام ہے“، ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا پھر بھی سورۃ فاتحہ پڑھوں) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 838]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ نماز کارکن ہے۔ مقتدی اور اکیلے دونوں پر فرض ہے۔ کہ سورۃ فاتحہ پڑھیں۔
(2) نقص دو طرح کا ہوتا ہے۔ مثلا ایک انسان کا بازو یا پاؤں کٹ جائے تو انسان زندہ رہ سکتاہے۔ اگرچہ وہ ناقص ہوگا۔ لیکن اگر کسی کا سر کاٹ دیا جائے۔ یا دل نکال دیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ سورہ فاتحہ نہ پڑھنے سے ہونے واے نقص کو عام طور پر پہلی قسم کا نقص قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ مرفوع حدیث سے ثابت ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا۔ (لَاتَجْزِي صَلَاةٌ لَايُقْرَاءُ فِيْهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ) ”جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے۔ وہ کفایت نہیں کرتی۔“ (صحیح ابن خذیمة، الصلاۃ، جماع أبواب الأذان والإقامة، با ب الذکر الدلیل علی أن الخداج۔ ۔ ۔ ھو النقص الذی لاتجزیٔ الصلواۃ معه، حدیث: 490) کفایت نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی پڑھی ہوئی نماز کافی نہیں دوبارہ پڑھنے پڑے گی۔
(3)(پڑھنا)(إِقْرَاء بِهَا فِي نَفْسِكَ) دل میں پڑھ لے۔ اس کا مطلب زبان کو حرکت دیے بغیر دل میں سوچنا نہیں۔ کیونکہ اسے قراءت (پڑھنا) نہیں کہا جاتا۔ بلکہ اس طرح پڑھنا مراد ہے۔ کہ ساتھ کھڑا ہوا نمازی آواز نہ سنے۔ اس طرح پڑھنا استماع اور انصات کے خلاف بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ قراۃ فاتحہ خلف الامام کو استماع اور انصات کے خلاف باور کرا کے اس حکم نبویﷺسے انکار کیا جاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 838
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1003
1003- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے، جب میرا بندہ پڑھتا ہے۔ ”تما م تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں۔“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری حمد بیان کی ہے۔ جب بندہ یہ پڑھتا ہے۔ ”وہ مہربا ن اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی ہے، یا میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے۔ جب بندہ پڑھتا ہے۔ ”وہ روز جزا کا مالک ہے۔“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے مجھے تفو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1003]
فائدہ: اس حدیث سے سورۃ الفاتحہ کی زبردست فضیلت ثابت ہوتی ہے، جب بھی کوئی اس سورہ کو نماز میں پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہر ہر آیت کا جواب دیتے ہیں۔ اس سورت میں پہلی تین آیات اور «اياك نعبد» تک اللہ تعالیٰ کی تعریف ہے، اس کے بعد «اياك نستعين» سے لے کر «ولا الضالين» تک اللہ تعالیٰ سے مختلف چیز میں مانگی جاتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب بھی دعا کی جائے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنی چاہیے، اس کے بعد جو ضرورت ہو وہ پیش کرنی چاہیے۔ یہاں بطور تنبیہ عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہیں جو سورہ فاتحہ خود پڑھتا ہے، صرف سننے والے کو اللہ تعالیٰ جواب نہیں دیتے، اس سے بھی ہر نماز میں سورہ فاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1002
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1004
1004- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”ہر وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نامکمل ہوتی ہے۔ وہ نا مکمل ہوتی ہے۔ وہ نامکمل ہوتی ہے۔“ عبدالرحمٰن نامی راوی کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: بعض اوقات میں امام کی تلاوت سن رہا ہوتا ہوں (اس وقت میں کیا کروں؟) تو انہوں نے اپنے ہاتھ کے ذریعے ٹہوکا دے کر ارشاد فرمایا: ”اے فارسی (راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) ابن فارسی! تم دل میں اسے پڑھا لیا کرو۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1004]
فائدہ: اس حدیث میں بھی واضح ثبوت ہے کہ امام کی نماز اپنی ہوتی ہے، اور مقتدی کی نماز اپنی۔ اگر امام نماز میں سورہ فاتحہ پڑھے گا تو اس کی نماز مکمل ہو گی، اسی طرح جب مقتدی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھے گا تو اس کی نماز مکمل ہوگی۔ کیونکہ اس حدیث میں «كل صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب فهي خداج» کہا گیا ہے اور «خداج» کا معنی”ناقص ہونا“ اور ”ادھورا ہونا“ ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1003
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1020
1020- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں ہر نماز میں تلاوت کرتا ہوں، تاہم جن نمازوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز میں تلاوت کرتے تھے ہم بھی تمہارے سامنے ان میں بلند آواز میں تلاوت کرتے ہیں اور جن نمازوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پست آواز میں تلاوت کرتے تھے ان نمازوں میں ہم بھی تمہارے سامنے پست آواز میں تلاوت کرتے ہیں۔ ہر وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ تلاوت نہ کی جائے، وہ نامکمل ہوتی ہے۔ ایک صاحب نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: آپ کی کیا رائے ہے؟ اگر میں صرف سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتا ہوں، تو کیا میرے لیے یہ جائز ہوگا، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1020]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جن نمازوں میں قرأت جہری ثابت ہے، ان میں قرأت جہری کی جائے گی، اور وہ نماز مغرب، نماز عشاء، اور نماز فجر ہیں۔ اور جن نمازوں میں قرٱت مخفی ثابت ہے ان میں سری قرٱت ہی کی جائے گی اور وہ نماز ظہر اور نماز عصر ہیں۔ نیز ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، کچھ بحث پہلے گزر چکی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1019
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 882
علاء اور ابو سائب جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم نشین تھے ابو ہریرہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قراءت کے بغیر کوئی نماز نہیں ہے۔“ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، جس نماز کو رسول اللہ ﷺ نے بلند قراءت سے پڑھا ہم نے بھی اس میں قراءت بلند پڑھی اور جو نماز آپﷺ نے آہستہ قراءت سے پڑھی، ہم نے بھی تمہارے لیے اس کی قراءت آہستہ کی (قراءت کو مخفی رکھا)۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:882]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے، فاتحہ پڑھے بغیر چارہ نہیں ہے اور اس سے زائد پڑھنا اجرو ثواب اور فضیلت کا باعث ہے، اگرچہ نماز صرف فاتحہ ہی سے ہو جائے گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 882
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:772
772. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہر نماز میں قراءت کرنی چاہئے، پھر جن نمازوں میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بآواز بلند سنایا ہے ہم ان میں تمہیں بآواز بلند سناتے ہیں اور جن میں آپ نے ہم سے قراءت کو پشیدہ رکھا ہے، ان میں ہم بھی تم سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔ اور اگر تو سورہ فاتحہ سے زیادہ قراءت نہ کرے تو بھی کافی ہے اور اگر زیادہ پڑھ لے تو اچھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:772]
حدیث حاشیہ: (1) بعض روایات میں حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اس حدیث کو مرفوعاً بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ نماز قراءت کے بغیر نہیں ہوتی۔ مسند ابی عوانہ میں یہ روایت بایں الفاظ ہے کہ میں نے آپ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، بہر حال یہ روایت مرفوع کے حکم میں ہے۔ امام بخاری ؒ کا مدعا بایں طور ثابت ہے کہ ہر نماز میں قراءت ہے، نماز فجر بھی انھی نمازوں میں سے ہے، لہٰذا اس میں بھی قراءت ہے۔ روایت کے آخری حصے میں یہ اضافہ ہے کہ اگر تو امام ہے تو مقتدی حضرات کا خیال رکھتے ہوئے نماز میں تخفیف کر اور اگر تو اکیلا ہے تو جس قدر تو چاہے نماز کو لمبا کر اور ہر نماز میں قراءت ہے جیسا کہ مسند ابی یعلی میں ہے۔ (2) اس روایت سے معلوم ہوا کہ جو شخص نماز میں فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی اور فاتحہ کے علاوہ زائد پڑھنا مستحب ہے۔ اگرچہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں فاتحہ کے علاوہ دیگر آیات کا پڑھنا بھی ضروری ہے۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ کا یہی موقف ہے۔ بہر حال حضرت ابو ہریرہ ؓ کی اس روایت کا بظاہر تقاضا یہ ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور اس کے علاوہ یگر آیات کا تمام رکعات میں پڑھنا مستحب ہے، ضروری نہیں۔ (فتح الباري: 327/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 772