عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مکہ میں صبح کی نماز پڑھائی، آپ نے سورۃ مؤمنون کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم موسیٰ ۱؎ اور ہارون علیہما السلام، یا موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے قصے پر پہنچے (راوی حدیث ابن عباد کو شک ہے یا رواۃ کا اس میں اختلاف ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانسی آ گئی، آپ نے قرآت چھوڑ دی اور رکوع میں چلے گئے، عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ (سابقہ حدیث کے راوی) اس وقت وہاں موجود تھے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 649]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأذان 106(774تعلیقاً)، صحیح مسلم/الصلاة 35 (455)، سنن النسائی/الافتتاح 76 (1008)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 5 (820)، (تحفة الأشراف: 5313)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/411) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا ذکر: «ثم أرسلنا موسى وأخاه هارون بآياتنا وسلطان مبين»(سورۃ المومنون: ۴۵) میں ہے، اور عیسی کا ذکر اس سے چار آیتوں کے بعد: «وجعلنا ابن مريم وأمه آية وآويناهما إلى ربوة ذات قرار ومعين»(سورۃ المؤمنون: ۵۰) میں ہے۔ ۲؎: اس سے پہلے والی حدیث کی مناسبت باب سے ظاہر ہے اور یہ حدیث اسی حدیث کی مناسبت سے یہاں نقل کی گئی ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث820
´فجر میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔` عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں «سورۃ مومنون» کی تلاوت فرمائی، جب اس آیت پہ پہنچے جس میں عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے، تو آپ کو کھانسی آ گئی، اور آپ رکوع میں چلے گئے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 820]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر سورہ مومنون کی آیت (50) میں وارد ہے۔ جہاں تین رکوع مکمل ہوتے ہیں۔ گویا رسول اللہﷺ مزید تلاوت کرنا چاہتے تھے۔ لیکن کھانسی کی وجہ سے تلاوت ختم کردی۔ اس سے بھی حدیث 818 کی تایئد ہوتی ہے۔ جس میں ساٹھ سے سو تک آیات پڑھنے کا ذکر ہے۔
(2) اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز میں پوری سورت کا پڑھنا لازم نہیں۔
(3) اگردوران قراءت میں امام کو کوئی ایساعارضہ پیش آجائے کہ قراءت کو جاری رکھنا مشکل ہوتو اسے قراءت ختم کرکے رکوع میں چلے جانا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 820
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1022
حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں مکہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور سورہٴ مومنون کی قرأت شروع کردی، جب موسیٰ اور ہارون عَلیہِ السَّلام کا ذکر آیا، یا عیسیٰ عَلیہِ السَّلام کا (محمد بن عباد کو شک ہے راویوں کا اس میں اختلاف ہے) رسول اللہ ﷺ کھانسی آنے لگی تو آپﷺ رکوع میں چلے گئے، عبداللہ بن سائب رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس وقت موجود تھے، عبدالرزاق کی روایت میں ہے، آپﷺ نے قرأت بند کردی اور رکوع میں چلے گئے، اور اس کی حدیث میں راوی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1022]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرورت کے تحت قراءت کو درمیان میں بند کرنا جائز ہے اور سورۃ کی تکمیل ضروری نہیں ہے۔ بقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بلاضرورت سورۃ کو مکمل نہ کرناجمہور کے نزدیک جائز ہے لیکن خلاف اولیٰ ہے یعنی بہتر یہی ہے کہ مکمل سورہ پڑھی جائے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول یہ ہے کہ درمیان میں قراءت موقوف کر دینا مکروہ ہے۔