الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
74. باب الإِمَامِ يُحْدِثُ بَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ آخِرِ الرَّكْعَةِ
74. باب: آخری رکعت کے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد امام کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 618
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ابْنِ عَقِيلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کی کلید (کنجی) پاکی ہے، اور اس کی تحریم تکبیر ہے، اور اس کی تحلیل تسلیم (سلام) ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 618]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطھارة 3 (3)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 3 (275)، (تحفة الأشراف: 10265)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/123)، سنن الدارمی/الطھارة 21 (713) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: تکبیر تحریمہ یعنی «اللہ اکبر» کہنے سے عام مشاغل حرام ہو جاتے ہیں، اور «السلام علیکم ورحمة اللہ» کہنے سے یہ مشاغل حلال ہو جاتے ہیں (وہ سارے کام جائز ہو جاتے ہیں جو نماز میں ناجائز ہو گئے تھے)۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کی ابتداء لفظ «اللہ اکبر» سے ہے اور اس سے نکلنے کے لیے «السلام علیکم ورحمة اللہ» مشروع ہے نہ کہ کوئی اور کلمات یا اعمال، پس سلام ہی کے ذریعہ آدمی کی نماز پوری ہو گی نہ کہ کسی اور چیز سے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
ابن عقيل ضعفه الجمھور وللحديث شواھد كثيرة منھا قول ابن مسعود رضي الله عنه، رواه البيهقي (2/ 16) وسنده صحيح وله حكم المرفوع، فالحديث حسن

   جامع الترمذيمفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم
   سنن أبي داودمفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم
   سنن ابن ماجهمفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم
   سنن أبي داودمفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 618 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 618  
618۔ اردو حاشیہ:
تکبیر یعنی «الله اكبر» کہنے سے عام مشاغل حرام ہو جاتے ہیں اور «السلام عليكم» کہنے سے یہ مشاغل حلال ہو جاتے ہیں۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کی ابتداء لفظ «الله اكبر» سے ہے اور اس سے نکلنے کے لیے «السلام عليكم ورحمةالله» مشروع ہے نہ کوئی اور کلمات یا اعمال۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 618   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 61  
´اللہ اکبر کہنے ہی سے نماز شروع ہوتی ہے`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کی کنجی طہارت، اس کی تحریم تکبیر کہنا، اور تحلیل سلام پھیرنا ہے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 60]
فوائد و مسائل:
➊ نماز کے لیے وضو لازمی اور شرط ہے۔ اثنائے نماز میں اگر وضو ٹوٹ جائے تو نماز چھوڑ کر وضو کیا جائے۔
➋ اللہ اکبر کہنے ہی سے نماز شروع ہوتی ہے اور اس دوران میں باتیں اور دوسرے اعمال حرام ہو جاتے ہیں، اس لیے اسے تکبیر تحریمہ کہا جاتا ہے اور اس کا اختتام سلام پر ہوتا ہے اور اس طرح یہ پابندی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 61   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث275  
´نماز کی کنجی وضو (طہارت) ہے۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کی کنجی طہارت (وضو) ہے، اور (دوران نماز ممنوع چیزوں کو) حرام کر دینے والی چیز تکبیر (تحریمہ) ہے، اور (نماز سے باہر) امور کو حلال کر دینے والی چیز سلام ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 275]
اردو حاشہ:
(1)
جس طرح کنجی کے بغیر تالا نہیں کھلتا اسی طرح حدث اصغر اور حدث اکبر سے پاک ہوئے بغیر نماز میں داخل ہونا ممکن نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ طہارت نماز کے لیے شرط ہے۔

(2)
تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنے سے نماز کے منافی تمام امور ممنوع ہوجاتے ہیں اس لیے نماز میں داخل ہوتے ہی وقت کہی جانے والی تکبیر کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔
اس لحاظ سے نماز میں اس کی وہی حیثیت ہے جو حج میں احرام باندھنے کی ہے۔
جس سے حاجی پر کچھ پابندیاں لگ جاتی ہیں۔

(3)
تکبیر تحریمہ سے لگنے والی پابندیاں اس وقت اٹھتی ہیں جب نمازی سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہوتا ہے اس لیے اسے تحلیل کہا گیا ہے، یعنی جو چیزیں نماز میں حرام اور ممنوع تھیں اب وہ حلال اور جائز ہو گئیں۔

(4)
نماز میں داخل ہونے کا طریقہ تکبیر ہی ہے اس کے علاوہ کسی دوسرے کلمے سے یا کسی دوسری زبان میں اللہ کا نام لیکر انسان نماز میں داخل نہیں ہوسکتا بعض علماء کا یہ موقف درست نہیں کہ اللہ کا نام کسی طرح سے بھی لے لیا جائے نماز شرع ہوجاتی ہے۔
خواہ اللہ اعظم کہا جائے یا اللہ کبیر وغیرہ۔

(5)
بعض علماء کی رائے ہے کہ نمازی نماز کے باقی اعمال پورے کرنے کے بعد سلام کی بجائے کوئی ایسا عمل کرلے جونماز کے منافی ہوتو نماز مکمل ہوجاتی ہے۔
جبکہ اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے سلام۔
اس کے متعلق احادیث (حدیث: 914 تا 917)
آگے آئیں گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 275   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3  
´وضو نماز کی کنجی ہے۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کی کنجی وضو ہے، اور اس کا تحریمہ صرف «اللہ اکبر» کہنا ہے ۱؎ اور نماز میں جو چیزیں حرام تھیں وہ «السلام علیکم ورحمة اللہ» کہنے ہی سے حلال ہوتی ہیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 3]
اردو حاشہ:
1؎:
 یعنی اللہُ أکْبَرْ ہی کہہ کر نماز میں داخل ہونے سے وہ سارے کام حرام ہوتے ہیں جنہیں اللہ نے نماز میں حرام کیا ہے،
اللہُ أکْبَرْ کہہ کر نماز میں داخل ہونا نبی اکرم ﷺ کا دائمی عمل تھا،
اس لیے کسی دوسرے عربی لفظ یا عجمی لفظ سے نماز کی ابتداء صحیح نہیں ہے۔

2؎:
 یعنی صرف السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَةُ اللہِ ہی کے ذریعہ نماز سے نکلا جاسکتا ہے۔
دوسرے کسی اور لفظ یا عمل کے ذریعہ نہیں۔

3؎:
یہ کلمات تعدیل میں سے ہے اور جمہور کے نزدیک یہ کلمہ راوی کے تعدیل کے چوتھے مرتبے پر دلالت کرتا ہے جس میں راوی کی عدالت تو واضح ہوتی ہے لیکن ضبط واضح نہیں ہوتا،
امام بخاری رحمہ اللہ جب کسی کو صدوق کہتے ہیں تو اس سے مراد ثقہ ہوتا ہے جو تعدیل کا تیسرا مرتبہ ہے۔

4؎:
 مقارب الحدیث حفظ و تعدیل کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے،
لفظ مقارب دو طرح پڑھا جاتا ہے:
راء پر زبر کے ساتھ،
اور راء کے زیر کے ساتھ،
زبر کے ساتھ مقارَب الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی حدیث اس کی حدیث سے قریب ہے،
اور زیر کے ساتھ مقارِب الحدیث سے یہ مراد ہے کہ اس کی حدیث دیگر ثقہ راویوں کی حدیث سے قریب تر ہے،
یعنی اس میں کوئی شاذ یا منکر روایت نہیں ہے،
امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ صیغہ ولید بن رباح اور عبد اللہ بن محمد بن عقیل کے بارے میں استعمال کیا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3