سہل بن ابی امامہ کا بیان ہے کہ وہ اور ان کے والد عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں جب وہ مدینے کے گورنر تھے، مدینے میں انس رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو دیکھا، وہ ہلکی یا مختصر نماز پڑھ رہے ہیں، جیسے وہ مسافر کی نماز ہو یا اس سے قریب تر کوئی نماز، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میرے والد نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ بتائیے کہ یہ فرض نماز تھی یا آپ کوئی نفلی نماز پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا: یہ فرض نماز تھی، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، اور جب بھی مجھ سے کوئی غلطی ہوتی ہے، میں اس کے بدلے سجدہ سہو کر لیتا ہوں، پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ۲؎ کہ تم پر سختی کی جائے ۳؎ اس لیے کہ کچھ لوگوں نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کر دی تو ایسے ہی لوگوں کے باقی ماندہ لوگ گرجا گھروں میں ہیں انہوں نے رہبانیت کی شروعات کی جو کہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی پھر جب دوسرے دن صبح ہوئی تو کہا: کیا تم سواری نہیں کرتے یعنی سفر نہیں کرتے کہ دیکھو اور نصیحت حاصل کرو، انہوں نے کہا: ہاں (کرتے ہیں) پھر وہ سب سوار ہوئے تو جب وہ اچانک کچھ ایسے گھروں کے پاس پہنچے، جہاں کے لوگ ہلاک اور فنا ہو کر ختم ہو چکے تھے، اور گھر چھتوں کے بل گرے ہوئے تھے، تو انہوں نے کہا: کیا تم ان گھروں کو پہنچانتے ہو؟ میں نے کہا: مجھے کس نے ان کے اور ان کے لوگوں کے بارے میں بتایا؟ (یعنی میں نہیں جانتا) تو انس نے کہا: یہ ان لوگوں کے گھر ہیں جنہیں ان کے ظلم اور حسد نے ہلاک کر دیا، بیشک حسد نیکیوں کے نور کو گل کر دیتا ہے اور ظلم اس کی تصدیق کرتا ہے یا تکذیب اور آنکھ زنا کرتی ہے اور ہتھیلی، قدم جسم اور زبان بھی اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4904]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 899) (حسن) (اس میں سعید بن عبدالرحمن لین الحدیث ہیں، شواہد وطرق کی بناء پر حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی 3124 وتراجع الألباني 13)»
وضاحت: ۱؎: دشوار اور شاق عمل کر کے جیسے صوم دہر، پوری پوری رات شب بیداری اور عورتوں سے مکمل علیحدگی وغیرہ اعمال۔ ۲؎: یعنی یہ اعمال تم پر فرض قرار دے دئیے جائیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سعيد بن عبد الرحمٰن بن أبي العمياء مقبول (تق: 2353) أي مجهول الحال،وثقه ابن حبان وحده ولبعض الحديث شاهد حسن عند البخاري في التاريخ الكبير (97/4) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 171
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4904
فوائد ومسائل: یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حسد اور بغاوت کی وجہ سے افراد، خاندان اور قومیں دنیا کے اند ر ہی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4904
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 181
´رہبانیت کی مذمت` «. . . وَعَن أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَيُشَدِّدَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ والديار (رَهْبَانِيَّة ابتدعوها مَا كتبناها عَلَيْهِم) رَوَاهُ أَبُو دَاوُد . . .» ”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنی جانوں پر تشدد اور سختی مت کرو (یعنی عبادت ریاضت میں اتنی تکلیف مت اٹھاؤ جو تمہاری طاقت سے باہر ہو) ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر تشدد کرے گا اور سختی ڈالے دے گا۔ کیونکہ تم سے پہلے ایک قوم بنی اسرائیل نے اپنی جانوں پر تشدد کیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی ڈال دی۔ اس زمانے میں گرجا گھروں اور خانقاہوں اور عبارت خانوں میں پائے جاتے ہیں انہیں لوگوں کی یادگار ہیں اور بقایا ہیں کہ ان لوگوں نے رہبانیت اور ترک دنیا کو اپنی طبیعت سے تراش اور گڑ لیا جس کو ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 181]
تحقیق الحدیث اس کی سند ضعیف ہے۔ ◄ اسے ابویعلی الموصلی [المسند 365/6ح 3694] نے بھی اسی سند سے روایت کیا ہے۔ اس روایت کے راوی سعید بن عبدالرحمٰن بن ابی العمیاء کو ابن حبان کے سوا کسی نے ثقہ قرار نہیں دیا یعنی وہ مجہول الحال ہے۔ ◄ التاریخ الکبیر للبخاری [97/4] میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: «لا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ قَبْلَكُمْ بِتَشْدِيدِهِمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَسَتَجِدُونَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَارَاتِ» ”اپنے آپ پر تشدد نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے اپنے آپ پر تشدد کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے اور تم ان کے باقی رہ جانے والے نشانات راہبوں کے عبادت خانوں اور (سجدہ گاہوں والے) گھروں میں دیکھو گے۔“ ◄ ↰ اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ عبداللہ بن صالح کاتب اللیث سے امام بخاری کی روایت حسن ہوتی ہے اور باقی سند صحیح ہے۔ ◄ ابوشریح عبدالرحمٰن بن شریح الاسکندرانی ثقہ فاضل تھے۔ ان پر ابن سعد کی جرح مردود ہے۔ ◄ نیز دیکھئے: [تقريب التهذيب 3892]
فقہ الحدیث: التاریخ الکبیر للبخاری والی روایت کا فقہ الحدیث درج ذیل ہے۔ ➊ شریعت میں جن امور کی اجازت اور رخصت موجود ہے، انہیں خوامخواہ اپنے آپ پر حرام یا ممنوع قرار نہیں دینا چاہئیے بلکہ رخصت سے فائدہ اٹھانا ہی بہتر ہے۔ ➋ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے بلکہ معاشرے میں رہ کر اپنی اور لوگوں کی اصلاح میں مصروف رہنا چاہئیے۔ ➌ غلو سے ہر وقت کلی اجتناب کرتے ہوئے ہمیشہ عدل و انصاف والا درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہئیے۔ ➍ معاشرے سے دور خانقاہی نظام اصل میں احبار یہود اور رہبان نصاریٰ کے اعمال کی کاپی ہے۔ ➎ امام ابوداود کا سنن ابوداود میں کسی روایت پر سکوت اس کے حسن یا صحیح ہونے کی دلیل نہیں بلکہ عدل و انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے اسماء الرجال اور اصول حدیث کے مطابق ہی روایت کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہئیے۔ ➏ اسلام میں چلہ کشی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ➐ قرآن و حدیث سے زہد اور پرہیزگاری کا تو ثبوت ملتا ہے لیکن پیری مریدی کا کوئی ثبوت دلیل میں نہیں ہے۔ ➑ شریعت اسلامیہ میں اہل اسلام اور اہل ایمان کی صحیح تربیت کا پورا خیال رکھا گیا ہے تاکہ مسلمان، گمراہیوں سے بچتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رہیں اور اسی میں نجات ہے۔ ➒ سنت پر عمل میں ہی نجات ہے۔ ➓ بدعات سے اجتناب ضروری ہے۔