ام الدرداء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ابو الدرداء کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے، تو یہ لعنت آسمان پر چڑھتی ہے، تو آسمان کے دروازے اس کے سامنے بند ہو جاتے ہیں پھر وہ اتر کر زمین پر آتی ہے، تو اس کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں پھر وہ دائیں بائیں گھومتی ہے، پھر جب اسے کوئی راستہ نہیں ملتا تو وہ اس کی طرف پلٹ آتی ہے جس پر لعنت کی گئی تھی، اب اگر وہ اس کا مستحق ہوتا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ وہ کہنے والے کی طرف ہی پلٹ آتی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4905]
العبد إذا لعن شيئا صعدت اللعنة إلى السماء فتغلق أبواب السماء دونها ثم تهبط إلى الأرض فتغلق أبوابها دونها ثم تأخذ يمينا وشمالا فإذا لم تجد مساغا رجعت إلى الذي لعن فإن كان لذلك أهلا وإلا رجعت إلى قائلها
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4905
فوائد ومسائل: یہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک ضعیف ہے۔ لیکن معناَ صحیح ہے، یعنی لعنت کرنا بہت برا عمل ہے۔ اگر لعنت کردہ چیز اس کی مستحق نہ ہو تو لعنت کرنے والا خود ملعون ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں شیخ البانی ؒ نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیئے دیکھئے: (الصحیحة، حدیث: 1269) لعنت کے لغوی معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دور ہونا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4905