انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے انصار کی ایک لونڈی کو اس کے زیور کی وجہ سے قتل کر دیا، پھر اسے ایک کنوئیں میں ڈال کر اس کا سر پتھر سے کچل دیا، تو اسے پکڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے تو اسے رجم کر دیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن جریج نے ایوب سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4528]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/ الحدود 3 (1672)، سنن النسائی/ المحاربة 7 (4049)، (تحفة الأشراف: 950)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/163) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4049
´اس حدیث میں یحییٰ بن سعید سے روایت کرنے میں طلحہ بن مصرف اور معاویہ بن صالح کے اختلاف کا ذکر۔` انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک انصاری لڑکی کو اس کے زیور کی لالچ میں قتل کر کے، اسے کنوئیں میں پھینک دیا اور اوپر سے اس کا سر پتھروں سے کچل دیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ”اسے پتھروں سے اس طرح مارا جائے کہ وہ مر جائے۔“[سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4049]
اردو حاشہ: (1) ترجمۃ الباب جس آیت کریمہ پر مشتمل ہے اس آیت میں ان لوگوں کے متعلق شریعت مطہرہ کا حکم بیان کیا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے لڑائی کرتے ہیں، زمین میں شر و فساد پھیلاتے اور بغاوت کا ارتکاب کرتے ہیں، ڈاکے ڈالتے اور لوٹ مار کرتے ہیں۔ حدیث میں جس یہودی کی سزا کا ذکر ہے اس نے بھی فساد فی الارض کے جرم کا ارتکاب کیا۔ ایک معصوم جان کو ناحق قتل کر کے اس کا مال لوٹا وغیرہ، لہٰذا حدیث کی باب سے مناسبت بہت واضح اور صریح ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کو مجرم لوگوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کا حق ہے، نیز یہ بھی کہ وہ نرمی اور میٹھے پن سے مجرموں سے حقیقت حال اور ان کے بھید معلوم کرے جیسا کہ نبی ﷺ نے پہلے اس لڑکی سے مجرم کے بارے میں معلوم کیا، پھر اسے پکڑوایا اور اس سے حقیقت واقعہ معلوم کی۔ (3) جب کوئی مجرم -بلا اکراہ- اپنے جرم کا اقرار کرے تو اس پر حد لگانا حاکم پر واجب ہو جاتا ہے۔ (4) ایسا اشارہ جس کی مطلوب پر دلالت واضح ہو، وہ قابل حجت ہے۔ (5) عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے، جمہور کا یہی مذہب ہے۔ (6) یہ روایت اس بات کی بھی تائید کرتی ہے کہ قاتل جس طریقے اور جس آلے سے مقتول کو قتل کرے، قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا خصوصاً جبکہ وہ سفاکانہ طریقے سے قتل کرے۔ لفظ قصاص کا تقاضا بھی یہی ہے۔ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ قصاص صرف تلوار سے لیا جائے ان کی بات درست نہیں کیونکہ اس مفہوم کی کوئی بھی روایت صحیح نہیں جیسا کہ اس کی بابت حدیث: 4029 کے فوائد میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4049
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4050
´اس حدیث میں یحییٰ بن سعید سے روایت کرنے میں طلحہ بن مصرف اور معاویہ بن صالح کے اختلاف کا ذکر۔` انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک انصاری لڑکی کو اس کے ایک زیور کی لالچ میں قتل کر دیا، پھر اسے ایک کنوئیں میں پھینک دیا اور اس کا سر پتھر سے کچل دیا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ”اسے پتھروں سے اس طرح مارا جائے کہ وہ ہلاک ہو جائے۔“[سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4050]
اردو حاشہ: اصل واقعہ یوں ہے کہ اس یہودی نے بچی کا سر کچل کر اس کے زیورات اتار لیے اور اسے ایک کنویں میں پھینک دیا اور سمجھا کہ وہ مر چکی ہے لیکن اس میں ابھی کچھ جان باقی تھی۔ بچی کو آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے چند مشکوک افراد کے نام لے کر بچی سے پوچھا کہ کیا ان میں سے کسی نے اسے قتل کیا ہے؟ بچی ہر نام پر نفی میں سر ہلاتی رہی (کیونکہ وہ بول نہ سکتی تھی) حتیٰ کہ جب اس یہودی کا نام لیا گیا تو بچی نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس یہودی کو پکڑ کر تفتیس کی گئی تو وہ مان گیا کہ میں نے قتل کیا ہے۔ اتنے میں بچی فوت ہو گئی تو آپ نے حکم دیا کہ اس کا سر پتھر پر رکھ کر دوسرے پتھر سے کچلا جائے۔ یہاں تک کہ مر جائے۔ اس حدیث میں اسے رجم کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ رجم بھی پتھروں سے ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4050