فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4744
´عورت کو عورت کے بدلے قتل کرنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے زیور کی خاطر ایک لڑکی کو قتل کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (لڑکی) کے قصاص میں اسے مار ڈالنے کا حکم دیا۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4744]
اردو حاشہ:
جمہور اہل علم کے نزدیک مرد عورت کو قتل کرے تو اسے قصاصاً قتل کر دیا جائے الا یہ کہ معافی ہو جائے۔ مذکورہ واقعہ چونکہ ”ڈاکے“ کی تعریف میں آتا ہے، اس لیے آپ نے مقتولہ کے اولیاء سے معافی کا عندیہ معلوم نہیں فرمایا بلکہ اسے خود قتل کرا دیا کیونکہ ڈاکا مع قتل محاربہ کی ذیل میں آتا ہے جس میں معافی نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4744
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4745
´عورت کو عورت کے بدلے قتل کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا زیور لے لیا، اور پھر اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا، لوگوں نے اس عورت کو اس حال میں پایا کہ اس میں کچھ جان باقی تھی، وہ اسے لے کر لوگوں کے پاس پہنچے، یہ پوچھتے ہوئے: کیا اس نے مارا ہے، کیا اس نے مارا ہے، وہ بولی: ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، پھر اس کا بھی سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4745]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 4049، 4050۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4745
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4783
´تلوار کے بجائے کسی اور چیز سے قصاص لینے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو زیور پہنے دیکھا تو اسے پتھر سے مار ڈالا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، اس میں کچھ جان باقی تھی، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟“ (شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟“ (شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں فلاں نے قت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4783]
اردو حاشہ:
معلوم ہوا یہ ضروری نہیں کہ قصاص تلوار سے ہی لیا جائے، قصاص تو بذات خود بھی مماثلت کا تقاضا کرتا ہے، اس لیے اگر قاتل نے مقتول کو درد ناک طریقے سے قتل کیا ہو تو اسے بھی درد ناک طریقے ہی سے قتل کیا جائے گا۔ رہی حدیث [لا قَوَدَ إلا بالسَّيفِ] ”قصاص تلوار کے بغیر نہیں لیا جائے گا۔“ تو یہ ضعیف ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ قتل کسی بھی چیز سے ہو، اگر نیت قتل کی ہو تو قصاص لیا جا سکتا ہے کیونکہ اعتبار نیت کا ہے نہ کہ آلہ قتل کا بلکہ تلوار کے علاوہ تو قتل مزید دردن اک ہو جاتا ہے اور ظالمانہ بھی۔ مزید تفصیل احادیث: 4029، 4050، 4743 میں ملاحظہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4783
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4361
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے چاندی کے زیورات کی خاطر ایک لڑکی کو مار ڈالا، اسے پتھر سے مارا، اس لڑکی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، کیونکہ ابھی اس میں زندگی کے آثار تھے، جان نہیں نکلی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تجھے فلاں نے قتل کیا ہے؟“ اس نے سر کے اشارے سے بتایا، نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ (کسی اور کے بارے میں) پوچھا، تو اس نے سر سے اشارہ کیا، کہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4361]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اوضاح،
وضح کی جمع ہے،
یہ چاندی کے زیورات کی ایک قسم ہے۔
(2)
رمق:
زندگی کا آخری حصہ یا آخری سانس۔
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
اہل شر و فساد پر نظر رکھنی چاہیے،
اور شر و فساد کی صورت میں قرائن کی موجودگی کی بناء پر ان سے پوچھ گچھ بھی ہو سکتی ہے،
لیکن اقرار جرم کے بغیر انہیں مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا،
الا یہ کہ شہادت سے جرم ثابت ہو جائے،
اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے،
قابل فہم اشارہ معتبر اور قابل اعتماد ہے،
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے،
مالکیہ نے یہ کہا ہے،
اگر مقتول،
موت سے پہلے قاتل کی نشاندہی کر دے،
اور اس پر زخم کے نشان موجود ہوں تو اس کا یہ دعویٰ،
اس بات کا قرینہ اور علامت ہو گا،
کہ اس میں اس قاتل کا دخل ہے اس لیے یہ دعویٰ قسامہ کا سبب بنے گا،
اگر اولیائے مقتول اس قاتل کے ہی قاتل ہونے کی قسم اٹھائیں اور قتل عمد کا دعویٰ کریں،
تو اس سے قصاص لیا جائے گا،
لیکن جمہور کے نزدیک،
محض مرنے والے کے دعویٰ کو بینہ قرار نہیں دیا جا سکتا،
یہاں مقتولہ کے بیان پر یہودی کو قتل نہیں کیا گیا،
بلکہ اس کے قتل کے اقرار و اعتراف کی بناء پر قتل کیا گیا ہے۔
(2)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
مرد کو عورت کے بدلہ میں قتل کر دیا جائے گا۔
(3)
ائمہ حجاز اور جمہور علماء نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ قاتل جس آلہ،
ذریعہ اور طریقہ سے قتل کرے،
قصاص میں اسے اس طریقہ یا ذریعہ سے قتل کیا جائے گا،
لیکن احناف کے نزدیک اگر کوئی شخص کسی ثقیل اور بھاری چیز سے عمداً قتل کر دے،
اس میں تیز دھار آلہ استعمال نہ کرے،
مثلا تلوار،
تیر،
خنجر اور چھری،
تو یہ قتل عمد شمار نہیں ہو گا،
شبہ عمد ہو گا،
جس میں دیت مغلظہ ہوتی ہے،
امام ابو حنیفہ،
حسن،
شعبی،
ابن المسیب،
عطاء اور طاؤس کا یہی موقف ہے،
لیکن ائمہ ثلاثہ (مالک،
شافعی،
احمد)
اور صاحبین کے نزدیک اگر آلہ قتل ایسی چیز ہے،
جس سے عموماً زندگی ختم ہو سکتی ہے،
اس کا تیز دھار ہونا شرط نہیں ہے،
جیسے بڑا پتھر،
لاٹھی تو یہ قتل عمد ہے،
جس پر قصاص لازم آئے گا،
نخعی،
زھری،
ابن سیرین،
حماد،
عمرو بن دینار،
ابن لیلیٰ اور اسحاق کا یہی قول ہے۔
(المغني،
ج 11،
ص 447،
الدکتور ترکي)
لیکن خیال رہے احناف کے نزدیک اگر قاتل کا مقصد و ارادہ دوسرے کو قتل کرنا اور اس کی جان لینا ہے،
تو پھر اس کے لیے وہ کوئی بھی آلہ استعمال کرے،
وہ تیز دھار ہو یا ثقیل و بھاری،
تو یہ قتل،
قتل عمد ہو گا،
جس کی سزا،
قصاص ہے،
شبہ عمد نہیں ہو گا،
جس کی سزا بھاری دیت ہے۔
(تکملة،
ج 2،
ص 336)
گویا اختلاف صرف اس صورت میں ہے،
جب قاتل،
قتل کرنے کا اعتراف و اقرار نہ کرے،
تو پھر آلہ قتل کو دیکھا جائے گا،
لیکن آج کے دور کا تقاضا یہی ہے کہ،
قتل میں کسی قسم کا آلہ استعمال کیا جائے،
اور قتل بینہ (شہادت)
سے ثابت ہو جائے،
اس کو قتل عمد قرار دیا جائے،
جس کی اصل سزا قصاص ہے۔
علامہ تقی عثمانی نے اس کو ترجیح دی ہے کہ آج کل جمہور ائمہ اور صاحبین کی رائے پر عمل کرنا چاہیے۔
(تکملة،
ج 2،
ص 338) (4)
جمہور کے نزدیک قصاص کا طریقہ وہی ہے جس کو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ قاتل کے ساتھ وہی سلوک اور رویہ اختیار کیا جائے گا،
جو اس نے اختیار کیا تھا،
اگر اس نے کسی کو پتھر سے قتل کیا ہے،
تو اسے پتھر سے قتل کیا جائے گا،
اگر کسی کو پانی میں غرق کیا ہے تو اسے پانی میں ڈبویا جائے گا،
اگر لاٹھی سے قتل کیا ہے،
تو لاٹھی سے قتل کیا جائے گا،
لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک،
قاتل کو صرف تلوار سے قتل کیا جائے گا،
امام احمد کا ایک قول یہی ہے،
صاحبین اور ثوری کا بھی یہی نظریہ ہے۔
بعض حضرات کے نزدیک تلوار سے قتل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسا آلہ قتل جس سے فوراً جان نکل جائے،
اس لیے احناف کے موقف کے مطابق،
اس کے لیے وہ جدید آلات قتل استعمال کیے جا سکتے ہیں،
جس سے انسان کی فوری طور پر جان نکل جائے اور وہ تڑپ تڑپ کر نہ مرے۔
(تفصیلات کے لیے دیکھئے،
اسلامی قوانین ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن،
حصہ دوم،
بحث قصاص و دیت)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4361
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4365
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کوٹ ڈالا گیا تھا، تو لوگوں نے اس سے پوچھا، تیرے ساتھ یہ حرکت کس نے کی؟ فلاں نے؟ فلاں نے؟ حتی کہ لوگوں نے ایک یہودی کا نام لیا، تو اس نے سر کے اشارے سے تصدیق کی، یہودی کو پکڑ لیا گیا، تو اس نے اقرار کر لیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کا سر پتھروں سے کچلنے کا حکم دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4365]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہے،
مریض یا قریب الموت کا ایسا اشارہ جو سمجھ میں آتا ہو اس کے فہم میں کسی قسم کا شک و اشتباہ نہ ہو،
وہ معتبر اور قابل اعتماد ہے۔
ائمہ حجاز کا یہی نظریہ ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ اور ثوری کے نزدیک صرف گونگے کا اشارہ معتبر ہے،
اس سے حکم ثابت ہو گا،
مریض جب تک کلام نہ کرے،
محض اس کے اشارے سے کوئی حکم ثابت نہیں ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4365
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2413
2413. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ کسی یہودی نے ایک لڑکی کا سردو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ جب اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیاگیا تو لڑکی نے اپنے سر سے اشارہ کیا۔ تب وہ یہودی گرفتار کیا گیا اور اس نے (اپنے جرم کا) اعتراف بھی کرلیا تو نبی کریم ﷺ کے حکم سے اس کا سر بھی پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2413]
حدیث حاشیہ:
علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ مقتولہ لڑکی انصار سے تھی۔
و عند الطحاوي عدا یهودي في عهد رسول اللہ صلی اللہ علیه علی جاریة فأخذ أوضاخا کانت علیها و رضح رأسها و الأوضاخ نوع من الحلي یعمل من الفضة و لمسلم فرضح رأسها بین حجرین و للترمذي خرجت جاریة علیها أوضاح فأخذها یهودي فرضح رأسها و أخذا ما علیها من الحلي قال فأدرکت و بها رمق فأتي بها النبي صلی اللہ علیه وسلم قیل الحدیث۔
یعنی زمانہ رسالت میں ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا، جو چاندی کے کڑے پہنے ہوئے تھی۔
یہودی نے اس بچی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور کڑے اس کے بدن سے اتار لیے چنانچہ وہ بچی اس حال میں کہ اس میں جان باقی تھی، آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائی گئی اور اس نے اس یہودی کا یہ ڈاکہ ظاہر کر دیا۔
اس کی سزا میں یہودی کا بھی سر دو پتھروں کے درمیان کچل کر اس کو ہلاک کیا گیا۔
احتج بہ المالکیة و الشافعیة و الحنابلة و الجمهور علی أن من قتل بشيئ یقتل بمثله (قسطلانی)
یعنی مالکیہ اور شافعیہ اور حنابلہ اور جمہور نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ جو شخص کسی چیز سے کسی کو قتل کرے گا اسی کے مثل سے اس کو بھی قتل کیا جائے گا۔
قصاص کا تقاضا بھی یہی ہے۔
مگر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے اس کے خلاف ہے۔
وہ مماثلت کے قائل نہیں ہیں اور یہاں جو مذکور ہے اسے محض سیاسی اور تعزیری حیثیت دیتے ہیں۔
قانونی حیثیت سے اسے تسلیم نہیں کرتے مگر آپ کا یہ خیال حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔
حضرت امام ؒ نے خود فرما دیا ہے إذا صح الحدیث فهو مذھب یعنی جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2413
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2746
2746. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کا سر دو پتھرں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ لڑکی سے پوچھا گیا: تیرے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں شخص نے یا فلاں شخص نے کیا ہے؟ح تیٰ کہ اس یہودی کا نام لیاگیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (ہاں)، چنانچہ اس یہودی کو پکڑ کر لایا گیا۔ اس سے مسلسل باز پرس ہوتی رہی حتیٰ کہ اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا، پھر رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اس کا سر بھی پتھر سے کچل دیاگیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2746]
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ نے اس لڑکی کا بیان جو سر کے اشارے سے تھا‘ شہادت میں قبول کیا اور یہودی کی گرفتاری کا حکم دیا گو قصاص کا حکم صرف شہادت کی بنا پر نہیں دیا گیا بلکہ یہودی کے اقبال جرم پر لہذا ایسے مظلوم کے سر کے اشارے سے بھی اہل قانون نے موت کے وقت کی شہادت کو معتبر قراردیا ہے کیونکہ آدمی مرتے وقت اکثر سچ ہی کہتا ہے اور جھوٹ سے پرہیز کرتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2746
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6876
6876. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا، پھر اس لڑکی سے پوچھا گیا: تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (تو لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا) پھر اس یہودی کو نبی ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ اس سے مسلسل پوچھتے رہے حتیٰ کہ اس نے اقرار کرلیا تو اس کا سر بھی پتھروں سے کچل دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6876]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حنفیہ کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ قصاص ہمیشہ تلوار ہی سے لیا جائے گا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مرد عورت کے بدلے قلت کیا جائے گا۔
بعض لوگوں نے اس سے دلیل لی ہے کہ اجماع کا منکر کافر ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے۔
ایسی اجماعی بات کا منکر کافر ہے جس کا وجوب شریعت سے تواتراً ثابت ہو لیکن جس مسئلہ کا ثبوت حدیث صحیح متواتر یا آیت قرآن سے ثابت نہ ہو اور اس میں کوئی اجماع کا خلاف کرے تو وہ کافر نہ ہوگا۔
قاضی عیاض نے کہا جو عالم کے حدوث کا منکر ہو اور اسے قدیم کہے وہ کافر ہے اور جماعت کے چھوڑنے میں باغی اور رہزن اور اس قول سے مڑنے والے اور امام برحق سے مخالفت کرنے والے بھی آگئے ان کا بھی قتل درست ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6876
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2413
2413. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ کسی یہودی نے ایک لڑکی کا سردو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ جب اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیاگیا تو لڑکی نے اپنے سر سے اشارہ کیا۔ تب وہ یہودی گرفتار کیا گیا اور اس نے (اپنے جرم کا) اعتراف بھی کرلیا تو نبی کریم ﷺ کے حکم سے اس کا سر بھی پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2413]
حدیث حاشیہ:
(1)
پہلی دو روایات میں تھا کہ ایک یہودی کے دعویٰ کرنے پر مسلمان کی سرزنش کی گئی، اس طرح عدل و انصاف کا بول بالا ہوا، اس روایت میں ایک جرم کی پاداش میں یہودی کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔
اسلامی عدالت سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بےجا کسی کی طرف داری کرے یا بلاوجہ کسی کی حق تلفی کی مرتکب ہو۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قاتل کو اسی طرح سزائے موت دی جائے جس طرح اس نے مقتول کو قتل کیا ہو لیکن کچھ ائمۂ کرام کا موقف ہے کہ قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا لیکن ان کا یہ موقف حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے محل نظر ہے۔
اصل واقعہ یہ ہے:
ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا جس نے چاندی کے کڑے پہن رکھے تھے۔
یہودی نے لڑکی کا سر پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور اس کے کڑے اتار لیے، چنانچہ سزا کے طور پر یہودی کو بھی اسی طرح قتل کیا گیا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2413
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2746
2746. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کا سر دو پتھرں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ لڑکی سے پوچھا گیا: تیرے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں شخص نے یا فلاں شخص نے کیا ہے؟ح تیٰ کہ اس یہودی کا نام لیاگیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (ہاں)، چنانچہ اس یہودی کو پکڑ کر لایا گیا۔ اس سے مسلسل باز پرس ہوتی رہی حتیٰ کہ اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا، پھر رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اس کا سر بھی پتھر سے کچل دیاگیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2746]
حدیث حاشیہ:
اس مقام پر دو مسئلے ہیں جن کی وضاحت یہ ہے کہ اشارے سے وصیت کا ثبوت ہو سکتا ہے کیونکہ اشارہ، کلام کے قائم مقام ہے بشرطیکہ اشارہ واضح ہو، اس سے مقصد میں کسی قسم کا شک پیدا نہ ہوتا ہو۔
اشارہ سر سے کیا جائے یا ہاتھ سے، اگر حاضرین مقصد سمجھ جاتے ہیں تو وصیت کے لیے کافی ہے۔
بعض حضرات کا موقف ہے کہ مریض کے اشارے سے کسی وصیت کا ثبوت نہیں ہو گا جب تک کلام نہ کرے، لیکن یہ موقف حدیث بالا کے پیش نظر محل نظر ہے۔
دوسرا مسئلہ قصاص کا ہے۔
وہ اشارے سے ثابت نہیں ہو گا جب تک کہ ملزم اپنی زبان سے اس کا اعتراف نہ کرے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قصاص کا حکم اشارے سے گواہی کی بنا پر نہیں دیا بلکہ یہودی کے اقرار جرم کے بعد اس کا سر کچلا گیا، چنانچہ امام بخاری ؒ نے کتاب الدیات میں خود ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب:
إذا أقر بالقتل مرة قتل به)
”جب کوئی شخص ایک مرتبہ قتل کا اقرار کرے تو اسے قصاص کے طور پر قتل کیا جائے گا۔
“ وہاں دلیل کے طور پر یہی حدیث پیش کی گئی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2746
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6876
6876. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا، پھر اس لڑکی سے پوچھا گیا: تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (تو لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا) پھر اس یہودی کو نبی ﷺ کے پاس لایا گیا۔ آپ اس سے مسلسل پوچھتے رہے حتیٰ کہ اس نے اقرار کرلیا تو اس کا سر بھی پتھروں سے کچل دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6876]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ اس یہودی نے لڑکی کے زیورات چھیننے کے لیے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن ابھی کچھ سانس باقی تھے کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔
آپ نے پوچھا:
تجھے فلاں نے قتل کیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا کہ نہیں، پھر اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں، پھر اس یہودی سے تفتیش کی گئی تو اس نے اعتراف جرم کرلیا تو اسے بھی اس جرم کی پاداش میں کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔
(جامع الترمذي، الدیات، حدیث: 1394) (2)
صرف مقتول کے کہنے سے کسی ملزم کو سزا نہیں دی جائے گی اور نہ داخلی یا خارجی قرائن ہی قصاص کے لیے کافی ہوتے ہیں بلکہ جب تک ملزم اپنے جرم کا اعتراف نہ کر لے اس وقت تک اسے سزا نہیں دی جا سکتی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اس یہودی نےاپنےجرم کا اعتراف کر لیا۔
(صحیح البخاري، الخصومات، حدیث: 2413)
اس لڑکی کے مرنے کے بعد یہودی سے اس کا قصاص لیا گیا کیونکہ لڑکی کو جب لایا گیا تھا تو وہ آخری سانس لے رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کس نے قتل کیا ہے؟ (فتح الباري: 248/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6876
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6877
6877. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مدینہ طیبہ میں ایک لڑکی چاندی کے زیورات پہنے باہر نکلی۔ ایک یہودی نے اسے پتھر مارا۔ اس میں آخری سانس تھى کہ اسے نبی ﷺ کے پاس لایا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟“ لڑکی نے (انکار کرتے ہوئے) اپنا سر اٹھایا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ پوچھا: ”کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟“ لڑکی نے پھر(انکار کرتے ہوئے) اپنا سر اوپر کیا۔ جب آپ نے تیسری مرتبہ پوچھا: ”کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟“ تو اس نے (ہاں کرتے ہوئے) اپنا سر نیچے کر لیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس (یہودی) کو بلایا اور اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6877]
حدیث حاشیہ:
(1)
کچھ حضرات کا خیال ہے کہ قصاص ہمیشہ تلوار سے لینا چاہیے، پتھر یا لکڑی سے قاتل کو نہیں مارا جائے گا لیکن جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ جس طرح قاتل نے قتل کیا ہے اس طرح بھی قصاص لیا جا سکتا ہے، تلوار سے قصاص لینا ضروری نہیں۔
تلوار سے قصاص لینے کے متعلق ایک روایت حسب ذیل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قصاص سرف تلوار کے ساتھ ہے۔
“ (سنن ابن ماجة، الدیات،، حدیث: 2667)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے صراحت سے بیان کیا ہے۔
(تلخیص الحبیر: 39/4)
اس لیے یہ مسئلہ صحیح نہیں، قصاص کسی بھی چیز کے ذریعے سے لیا جا سکتا ہے۔
(2)
دراصل امام بخاری رحمہ اللہ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جب بھی کسی کی دست اندازی سے موت واقع ہو جائے، اس میں قصاص ہے، خواہ پتھر سے ہو یا لکڑی سے۔
کچھ حضرات نے قتل عمد کے لیے ہتھیار سے قتل کرنے کی شرط لگائی ہے، لیکن ان شرائط کی کوئی حقیقت نہیں جیسا کہ حدیث بالا سے ثابت ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6877
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6879
6879. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کو اس کے زیورات کے لالچ میں آ کر پتھر سے قتل کر دیا۔ وہ لڑکی نبی ﷺ کے پاس لائی گئی تو اس کے جسم میں کچھ جان باقی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟“ اس نے سر کے اشارے سے انکار کر دیا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ پوچھا تو اس مرتبہ بھی اس نے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ پھر آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارے سے اقرار کیا، چنانچہ نبی ﷺ نے اس (قاتل یہودی) کو دو پتھروں سے کچل کر قتل کرا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6879]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کے کہنے سے ہی یہودی کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق وتفتیش کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہودی سے پوچھا۔
جب اس نے اعتراف کیا تو پھر اس کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔
(2)
قصاص کے لیے ضروری نہیں کہ تلوار یا تیز دھار ہتھیار ہی سے قتل کیا جائے، بلکہ کوئی بھی چیز قصاص کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔
اگرچہ تلوار سے قصاص لینے کے متعلق ایک حدیث بیان کی جاتی ہے لیکن وہ قانل حجت نہیں ہے کیونکہ وہ ضعیف ہے۔
(فتح الباري: 249/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6879
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6884
6884. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ اس لڑکی سے پوچھا گیا: تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے کیا ہے؟ آخر جب اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا۔ پھر اس یہودی کو لایا گیا تو اس نے اعتراف کر لیا۔ چنانچہ نبی ﷺ کے حکم سے اس کا سر بھی پتھروں سے کچل دیا گیا۔ راوی حدیث ہمام نے کہا: اس یہودی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6884]
حدیث حاشیہ:
(1)
مقتول کے اقرار سے کچھ ثابت نہیں ہوتا، لڑکی سے صرف اس لیے پوچھا گیا تھا کہ مشکوک شخص کی نشاندہی ہو جائے، پھر اس سے پوچھا جائے، اگر اقرار کر لے تو حسب ضابطہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔
(2)
اہل کوفہ نے قتل کو زنا پر قیاس کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ قاتل کو کم ازکم دو بار اقرار کرنا چاہیے، محض ایک مرتبہ اقرار کرنا کافی نہیں۔
لیکن جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ قاتل اگر ایک بار اعتراف کر لے تو کافی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور کی تائید کرتے ہوئے یہ حدیث پیش کی ہے کہ قاتل یہودی نے صرف ایک مرتبہ ہی اقرار کیا، پھر اسے کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔
اس سےبار بار اقرار نہیں کرایا گیا۔
اس حدیث میں عدد کا کوئی ذکر نہیں، لہٰذا مطلق اقرار ہی کافی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6884
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6885
6885. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک یہودی کو ایک لڑکی کے بدلے میں قتل کرا دیا تھا کیونکہ یہودی نے اس لڑکی کو اس کے زیورات کے لالچ میں قتل کر دیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6885]
حدیث حاشیہ:
بعض اہل علم کا موقف ہے کہ اگر عورت، کسی آدمی کو قتل کر دے تو مقتول کے ورثاء عورت کے خاندان سے نصف دیت لینے کے حق دار ہوں گے اور اسی طرح اگر کوئی آدمی کسی عورت کو مار دے تو عورت کے ورثاء صرف نصف دیت لینے کے مجاز ہوں گے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کی ہے کہ جان ایک جیسی ہے، اس میں فرق نہیں کیا جائے گا، اس بنا پر اگر کوئی مرد کسی عورت کو قتل کر دے تو اس کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جائے گا جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کو قتل کیا کیونکہ اس نے ایک لڑکی کو قتل کیا تھا۔
اس موقف پر اکثر اہل علم کا اتفاق ہے۔
چند ایک فقہاء نے اس سے اختلاف کیا ہے لیکن نص کی مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور اہل علم کی تائید کی ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6885