الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل
51. باب فِي الْخَادِمِ يَأْكُلُ مَعَ الْمَوْلَى
51. باب: مالک کے ساتھ خادم کے کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3846
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا صَنَعَ لِأَحَدِكُمْ خَادِمُهُ طَعَامًا ثُمَّ جَاءَهُ بِهِ وَقَدْ وَلِيَ حَرَّهُ وَدُخَانَهُ، فَلْيُقْعِدْهُ مَعَهُ لِيَأْكُلَ، فَإِنْ كَانَ الطَّعَامُ مَشْفُوهًا فَلْيَضَعْ فِي يَدِهِ مِنْهُ أَكْلَةً أَوْ أَكْلَتَيْنِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں کسی کے لیے اس کا خادم کھانا بنائے پھر اسے اس کے پاس لے کر آئے اور اس نے اس کے بنانے میں گرمی اور دھواں برداشت کیا ہے تو چاہیئے کہ وہ اسے بھی اپنے ساتھ بٹھائے تاکہ وہ بھی کھائے، اور یہ معلوم ہے کہ اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس کے ہاتھ پر ایک یا دو لقمہ ہی رکھ دے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 3846]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الأیمان 10 (1663)، (تحفة الأشراف: 14628)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأطعمة 44 (1853)، مسند احمد (2/277، 283) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2557) صحيح مسلم (1663)

   صحيح البخاريإذا أتى أحدكم خادمه بطعامه فإن لم يجلسه معه فليناوله لقمة أو لقمتين أو أكلة أو أكلتين فإنه ولي علاجه
   صحيح البخاريإذا أتى أحدكم خادمه بطعامه فإن لم يجلسه معه فليناوله أكلة أو أكلتين أو لقمة أو لقمتين فإنه ولي حره وعلاجه
   صحيح مسلمإذا صنع لأحدكم خادمه طعامه ثم جاءه به وقد ولي حره ودخانه فليقعده معه فليأكل فإن كان الطعام مشفوها قليلا فليضع في يده منه أكلة أو أكلتين
   جامع الترمذيإذا كفى أحدكم خادمه طعامه حره ودخانه فليأخذ بيده فليقعده معه فإن أبى فليأخذ لقمة فليطعمها إياه
   سنن أبي داودإذا صنع لأحدكم خادمه طعاما ثم جاءه به وقد ولي حره ودخانه فليقعده معه ليأكل فإن كان الطعام مشفوها فليضع في يده منه أكلة أو أكلتين
   سنن ابن ماجهإذا جاء أحدكم خادمه بطعامه فليجلسه فليأكل معه فإن أبي فليناوله منه
   سنن ابن ماجهإذا أحدكم قرب إليه مملوكه طعاما قد كفاه عناءه وحره فليدعه فليأكل معه فإن لم يفعل فليأخذ لقمة فليجعلها في يده
   صحيفة همام بن منبهإذا جاءكم الصانع بطعامكم قد أغنى عنكم حره ودخانه فادعوه فليأكل معكم وإلا فألقموه في يده
   بلوغ المرام إذا أتى أحدكم خادمه بطعامه فإن لم يجلسه معه فليناوله لقمة أو لقمتين
   مسندالحميديإذا كفى أحدكم خادمه صنعة طعامه، وكفاه حره ودخانه، فليجلسه، فليأكل معه، فإن أبى، فليأخذ لقمة فليروغها ثم ليعطها إياه
   مسندالحميدي

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3846 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3846  
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
: غلاموں اور خادموں کے ساتھ حسن معاملہ اور ان کی ہر ممکن دلجوئی اسلامی تہذیب وثقافت کا حصہ ہے۔
ان کا دل توڑنا ان کو حقیر سمجھنا یا ان کی تحقیر کرنا بہت بڑا عیب ہے۔
اور شرعا بھی درست نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3846   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4317  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے، پھر وہ اس کے سامنے پیش کرے اور وہ اس کے پکانے اور تیار کرنے میں، اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہے، تو آقا کو چاہیے اسے اپنے ساتھ بٹھائے، تاکہ وہ بھی ساتھ کھا سکے، اگر (کبھی) وہ کھانا کم ہو اور دونوں کے لیے کافی نہ ہو سکے، تو وہ اس کے ہاتھ میں اس سے ایک دو نوالے دے دے۔ راوی داؤد معنی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4317]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
مَشفُوهاً:
جس پر بہت سے ہونٹ گزرے ہوں،
اس لیے راوی نے اس کی تفسیر قلیل تھوڑے سے کی ہے۔
(2)
أُكلَةً أَو أُكلَتَينِ:
ایک دو لقمے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا،
اگر کھانا وافر ہو،
تو خادم کو ساتھ کھلائے یا ضرورت کے مطابق دے،
اور کسی وجہ سے کھانا کم ہو،
تو پھر کچھ نہ کچھ ضرور دے تاکہ خادم کی نظر ہوس یا للچائی نظر سے محفوظ رہے،
اور اس کے دل میں حسد و کدورت یا خیانت کا جذبہ نہ ابھرے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4317   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2557  
2557. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس اس کاخادم کھانا لے کر آئے تو اگر اسے اپنے ساتھ (کھلانے کے لیے) نہ بٹھا سکے تو اس کوایک یادو لقمے ضرور کھلادے، یا آپ ﷺ نے (لقمة اور لقمتين کے بجائے) أكلة أو أكلتين فرمایا۔ کیونکہ اس نے اس (کو تیار کرنے) کی زحمت اٹھائی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2557]
حدیث حاشیہ:
لفظ خادم میں غلام، نوکر چاکر، شاگرد سب داخل ہو سکتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2557   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2557  
2557. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس اس کاخادم کھانا لے کر آئے تو اگر اسے اپنے ساتھ (کھلانے کے لیے) نہ بٹھا سکے تو اس کوایک یادو لقمے ضرور کھلادے، یا آپ ﷺ نے (لقمة اور لقمتين کے بجائے) أكلة أو أكلتين فرمایا۔ کیونکہ اس نے اس (کو تیار کرنے) کی زحمت اٹھائی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2557]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں مکارم اخلاق کی تعلیم و ترغیب ہے۔
جب کوئی شخص کھانا تیار کرے تو اسے محنت کا پھل دینا چاہیے کیونکہ اس نے آگ کی گرمی اور دھواں وغیرہ برداشت کیا ہے۔
خادم کو اپنے ساتھ بٹھانے کا حکم استحباب کے طور پر ہے۔
اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک یا دو لقمے اسے ضرور دینے چاہئیں، نیز لفظ خادم میں نوکر چاکر اور شاگرد وغیرہ سب شامل ہو سکتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2557   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5460  
5460. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے جب کسی کے پاس اس کا خادم کھانا پکا کر لائے اگر اسے اپنے ساتھ بٹھا کر نہیں کھلا سکتا تو ایک یا دو لقمے اسے دے دے کیونکہ اس نے پکاتے وقت گرمی اور مشقت برداشت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5460]
حدیث حاشیہ:
خادم کھانا پکاتے وقت اس کی گرمی اور دھواں برداشت کرتا ہے، اس لیے اسے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا چاہیے۔
اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اسے ایک یا دو لقمے دے دیے جائیں تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو۔
ایک روایت میں ہے کہ خادم کو اپنے ساتھ بٹھائے۔
اگر وہ نہیں بیٹھتا تو ایک یا دو لقمے اسے دے دے۔
ایک یا دو لقمے اس صورت میں دیے جائیں جب کھانا کم ہو۔
اگر زیادہ ہو تو اسے ساتھ بٹھایا جائے یا اس کا حصہ الگ کر دیا جائے۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3846، و فتح الباري: 720/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5460