ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا مجھے محمد بن زیاد نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب کسی کا غلام کھانا لائے اور وہ اسے اپنے ساتھ (کھلانے کے لیے) نہ بٹھا سکے تو اسے ایک یا دو نوالے ضرور کھلا دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «لقمة أو لقمتين» کے بدل «أكلة أو أكلتين» فرمایا (یعنی ایک یا دو لقمے) کیونکہ اسی نے اس کو تیار کرنے کی تکلیف اٹھائی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِتْقِ/حدیث: 2557]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2557
حدیث حاشیہ: لفظ خادم میں غلام، نوکر چاکر، شاگرد سب داخل ہو سکتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2557
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2557
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں مکارم اخلاق کی تعلیم و ترغیب ہے۔ جب کوئی شخص کھانا تیار کرے تو اسے محنت کا پھل دینا چاہیے کیونکہ اس نے آگ کی گرمی اور دھواں وغیرہ برداشت کیا ہے۔ خادم کو اپنے ساتھ بٹھانے کا حکم استحباب کے طور پر ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک یا دو لقمے اسے ضرور دینے چاہئیں، نیز لفظ خادم میں نوکر چاکر اور شاگرد وغیرہ سب شامل ہو سکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2557
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3846
´مالک کے ساتھ خادم کے کھانے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کسی کے لیے اس کا خادم کھانا بنائے پھر اسے اس کے پاس لے کر آئے اور اس نے اس کے بنانے میں گرمی اور دھواں برداشت کیا ہے تو چاہیئے کہ وہ اسے بھی اپنے ساتھ بٹھائے تاکہ وہ بھی کھائے، اور یہ معلوم ہے کہ اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس کے ہاتھ پر ایک یا دو لقمہ ہی رکھ دے۔“[سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3846]
فوائد ومسائل: فائدہ۔ : غلاموں اور خادموں کے ساتھ حسن معاملہ اور ان کی ہر ممکن دلجوئی اسلامی تہذیب وثقافت کا حصہ ہے۔ ان کا دل توڑنا ان کو حقیر سمجھنا یا ان کی تحقیر کرنا بہت بڑا عیب ہے۔ اور شرعا بھی درست نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3846
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4317
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے، پھر وہ اس کے سامنے پیش کرے اور وہ اس کے پکانے اور تیار کرنے میں، اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہے، تو آقا کو چاہیے اسے اپنے ساتھ بٹھائے، تاکہ وہ بھی ساتھ کھا سکے، اگر (کبھی) وہ کھانا کم ہو اور دونوں کے لیے کافی نہ ہو سکے، تو وہ اس کے ہاتھ میں اس سے ایک دو نوالے دے دے۔“ راوی داؤد معنی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4317]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مَشفُوهاً: جس پر بہت سے ہونٹ گزرے ہوں، اس لیے راوی نے اس کی تفسیر قلیل تھوڑے سے کی ہے۔ (2) أُكلَةً أَو أُكلَتَينِ: ایک دو لقمے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوا، اگر کھانا وافر ہو، تو خادم کو ساتھ کھلائے یا ضرورت کے مطابق دے، اور کسی وجہ سے کھانا کم ہو، تو پھر کچھ نہ کچھ ضرور دے تاکہ خادم کی نظر ہوس یا للچائی نظر سے محفوظ رہے، اور اس کے دل میں حسد و کدورت یا خیانت کا جذبہ نہ ابھرے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4317
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5460
5460. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے جب کسی کے پاس اس کا خادم کھانا پکا کر لائے اگر اسے اپنے ساتھ بٹھا کر نہیں کھلا سکتا تو ایک یا دو لقمے اسے دے دے کیونکہ اس نے پکاتے وقت گرمی اور مشقت برداشت کی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5460]
حدیث حاشیہ: خادم کھانا پکاتے وقت اس کی گرمی اور دھواں برداشت کرتا ہے، اس لیے اسے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا چاہیے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اسے ایک یا دو لقمے دے دیے جائیں تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ خادم کو اپنے ساتھ بٹھائے۔ اگر وہ نہیں بیٹھتا تو ایک یا دو لقمے اسے دے دے۔ ایک یا دو لقمے اس صورت میں دیے جائیں جب کھانا کم ہو۔ اگر زیادہ ہو تو اسے ساتھ بٹھایا جائے یا اس کا حصہ الگ کر دیا جائے۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3846، و فتح الباري: 720/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5460