جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ حرہ میں قیام کیا، تو ایک شخص نے اس سے کہا: میری ایک اونٹنی کھو گئی ہے اگر تم اسے پانا تو اپنے پاس رکھ لینا، اس نے اسے پا لیا لیکن اس کے مالک کو نہیں پاس کا پھر وہ بیمار ہو گئی، تو اس کی بیوی نے کہا: اسے ذبح کر ڈالو، لیکن اس نے انکار کیا، پھر اونٹنی مر گئی تو اس کی بیوی نے کہا: اس کی کھال نکال لو تاکہ ہم اس کی چربی اور گوشت سکھا کر کھا سکیں، اس نے کہا: جب تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہیں لیتا ایسا نہیں کر سکتا چنانچہ وہ آپ کے پاس آیا اور اس کے متعلق آپ سے دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کوئی اور چیز ہے جو تجھے (مردار کھانے سے) بے نیاز کرے“ اس شخص نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم کھاؤ“۔ راوی کہتے ہیں: اتنے میں اس کا مالک آ گیا، تو اس نے اسے سارا واقعہ بتایا تو اس نے کہا: تو نے اسے کیوں نہیں ذبح کر لیا؟ اس نے کہا: میں نے تم سے شرم محسوس کی (اور بغیر اجازت ایسا کرنا میں نے مناسب نہیں سمجھا)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 3816]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3816
فوائد ومسائل: 1۔ جب آدمی از حد لاچار ہوجائے۔ اور کھانے کو کچھ نہ پائے تو اس کےلئے مردارکھانا جائز ہو جاتا ہے۔
2۔ یہ فطری اور شرعی حیا تھی کہ انتہائی مجبوری کے عالم میں بھی یہ شخص دوسروں کا مال کھانے کا روادار نہ ہوا۔ اور یہ ایمان کا حصہ ہے۔
3۔ یہ شخص ایسا پکا کھرا پابند شریعت مومن اور رسول اللہ ﷺ کا مطیع وفرمان بردار تھا کہ اس لاچاری کی کیفیت میں بھی اس نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی۔ اور اس حالت میں بھی لوگوں سے مانگنے کی ذلت قبول نہیں کی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3816