الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل
13. باب فِي طَعَامِ الْفُجَاءَةِ
13. باب: جلدی ہو تو بغیر ہاتھ دھوئے کھانا درست ہے۔
حدیث نمبر: 3762
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي يَعْنِي سَعَيدَ بْنَ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ:" أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ شِعْبٍ مِنَ الْجَبَلِ وَقَدْ قَضَى حَاجَتَهُ، وَبَيْنَ أَيْدِينَا تَمْرٌ عَلَى تُرْسٍ أَوْ حَجَفَةٍ، فَدَعَوْنَاهُ، فَأَكَلَ مَعَنَا وَمَا مَسَّ مَاءً".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پہاڑ کی گھاٹی سے قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آئے اس وقت ہمارے سامنے ڈھال پر کچھ کھجوریں رکھیں تھیں، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا تو آپ نے ہمارے ساتھ کھایا اور پانی کو ہاتھ نہیں لگایا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 3762]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 2700)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/397) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابوالزبیر مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں لیکن یہ حدیث صرف سنداً ضعیف ہے، اس کا معنی صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو الزبير عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 133

   جامع الترمذيأتته بعلالة من علالة الشاة فأكل ثم صلى العصر ولم يتوضأ
   سنن أبي داودأكل ثم دعا بوضوء فتوضأ به ثم صلى الظهر ثم دعا بفضل طعامه فأكل ثم قام إلى الصلاة ولم يتوضأ
   سنن أبي داودترك الوضوء مما غيرت النار
   سنن النسائى الصغرىترك الوضوء مما مست النار
   صحيح ابن خزيمةترك الوضوء مما مست النار
   المعجم الصغير للطبرانيترك الوضوء مما مست النار
   سنن أبي داودأقبل رسول الله من شعب من الجبل وقد قضى حاجته وبين أيدينا تمر على ترس أو حجفة فدعوناه فأكل معنا وما مس ماء
   مسندالحميديأتى النبي صلى الله عليه وسلم امرأة من الأنصار، فرشت له صورا لها، والصور النخلات المجتمعات، وذبحت له شاة، فأكل منها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم جاءت صلاة الظهر، فقام النبي صلى الله عليه وسلم، فتوضأ، ثم صلى الظهر، ثم أتي بعلالة الشاة، فأكل منها، ثم قام إلى العصر ولم يتوضأ

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3762 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3762  
فوائد ومسائل:

علامہ خطابی لکھتے ہیں۔
کہ اگر دعوت دینے والے نے پیشگی دعوت نہ دے رکھی ہو تو اچانک اس کے کھانے میں شریک ہونا نا پسند سمجھا جاتاہے۔
الا یہ کہ آثار وقرائن سے واضح ہوکہ صاحب طعام فراخ دلی سے پیش کش کر رہا ہے۔
توشریک ہوجائے۔


مذکورہ دونوں روایات (ہاتھ دھونے والی اور نہ دھونے والی) ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل حجت ہیں۔
بنا بریں کھانے کے وقت ہاتھ دھونے ضروری نہیں۔
ہاں اگر وہ صاف نہ ہوں تو پھر دھونے ضروری ہوں گے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3762   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 185  
´آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہ کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں باتوں (آگ کی پکی ہوئی چیز کھا کر وضو کرنے اور وضو نہ کرنے) میں آخری بات آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کرنا ہے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 185]
185۔ اردو حاشیہ: دو کاموں سے مراد آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنا اور نہ کرنا ہے، گویا وضو کرنے کا حکم منسوخ ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بھی اسی طرف اشارہ کر رہی ہے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فتح مکہ کے بعد مدینہ آئے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 185   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 80  
´آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (مدینہ میں) نکلے، میں آپ کے ساتھ تھا، آپ ایک انصاری عورت کے پاس آئے، اس نے آپ کے لیے ایک بکری ذبح کی آپ نے (اسے) تناول فرمایا، وہ تر کھجوروں کا ایک طبق بھی لے کر آئی تو آپ نے اس میں سے بھی کھایا، پھر ظہر کے لیے وضو کیا اور ظہر کی نماز پڑھی، آپ نے واپس پلٹنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ وہ بکری کے بچے ہوئے گوشت میں سے کچھ گوشت لے کر آئی تو آپ نے (اسے بھی) کھایا، پھر آپ نے عصر کی نماز پڑھی اور (دوبارہ) وضو نہیں کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 80]
اردو حاشہ:
1؎:
سوائے اونٹ کے گوشت کے،
جیسا کہ اگلی حدیث میں آرہا ہے،
اونٹ کے گوشت میں ایک خاص قسم کی بو اور چکناہٹ ہوتی ہے،
جس کی وجہ سے ناقض وضو کہا گیا ہے،
اس سلسلے میں وارد وضو کو صرف ہاتھ منہ دھو لینے کے معنی میں لینا شرعی الفاظ کو خواہ مخواہ اپنے حقیقی معنی سے ہٹانا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 80   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1303  
1303- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری خاتون کے پاس تشریف لائے اس خاتون نے مختلف قسم کی کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بکری بھی ذبح کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا گوشت کھایا پھر جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور ظہر کی نماز ادا کی پھر اس بکری کا باقی رہ جانے والا گوشت لایا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ کھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1303]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ ایک دوسرے کی دعوت کرنی چاہیے، دعوت میں روٹی، اور دودھ وغیرہ جتنی ڈشیں چا ہیں، بنائی جاسکتی ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1301