معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک الزام میں ایک شخص کو قید میں رکھا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3630]
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3785) أخرجه الترمذي (1417 وسنده حسن) ورواه النسائي (4879، 4880 وسندھما حسن) عبد الرزاق صرح بالسماع عند ابن الجارود (1003)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3630
فوائد ومسائل: فائدہ: جس شخص پر الزام ہو مگر حقیقت واضح نہ ہو تو اسے حقیقت واضح ہونے تک تحقیق کی غرض سے مختصر وقت کے لئے قید کرنا جائز ہے۔ تاہم قید کاعرصہ بلاوجہ غیر معمولی طور پر لمبا کرنا (جیسا کہ آج کل معمول ہے۔ ) شرعا ً محل نظر ہے، اس سے بہت سے مفاسد جنم لیتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3630
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1417
´کسی تہمت و الزام میں گرفتار کرنے کا بیان۔` معاویہ بن حیدہ قشیری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو تہمت ۱؎ کی بنا پر قید کیا، پھر (الزام ثابت نہ ہونے پر) اس کو رہا کر دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1417]
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: اس تہمت اورالزام کے کئی سبب ہوسکتے ہیں: اس نے جھوٹی گواہی دی ہوگی، یا اس کے خلاف کسی نے اس کے مجرم ہونے کا دعوی پیش کیا ہوگا، یا اس کے ذمہ کسی کا قرض باقی ہوگا، پھر اس کا جرم ثابت نہ ہونے پر اسے رہا کر دیا گیا ہو گا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جرم ثابت ہونے سے قبل قید وبند کرنا ایک شرعی امر ہے۔
2؎: پوری حدیث کے لیے دیکھئے سنن ابی داؤد حوالہ ٔ مذکور۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1417