عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک شخص سے کھجور کے ایک خاص درخت کے پھل کی بیع سلف کی، تو اس سال اس درخت میں کچھ بھی پھل نہ آیا تو وہ دونوں اپنا جھگڑا لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے والے سے فرمایا: ”تم کس چیز کے بدلے اس کا مال اپنے لیے حلال کرنے پر تلے ہوئے ہو؟ اس کا مال اسے لوٹا دو“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھجوروں میں جب تک وہ قابل استعمال نہ ہو جائیں سلف نہ کرو“۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3467]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/التجارات 61 (2284)، (تحفة الأشراف: 8595)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 21 (49)، مسند احمد (2/25، 49، 51، 58، 144) (ضعیف)» (اس کی سند میں ایک راوی رجل نجرانی مبہم ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (2284) رجل نجراني : مجهول (عون المعبود 293/3) وأبو إسحاق عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 124
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3467
فوائد ومسائل: 1۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم مسئلہ یہی ہے کہ تاجر اگر مطلوبہ مال مہیا کرنے سے عاجز رہے تو صرف وصول کردہ قیمت واپس کی جائے گی۔
2۔ خاص درخت یا باغ کی بیع سلم اس لئے روک دیا گیا کہ اس میں نقصان کا پہلو موجود ہے۔ پتہ نہیں اس پر پھل آئے گا یا نہیں۔ کم آئے گا یا زیادہ؟ اس لئے عمومی معاملہ ہونا چاہیے نہ کہ خاص۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3467