نجرانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا میں کسی درخت کے کھجور کی ان کے پھلنے سے پہلے بیع سلم کروں؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: کیوں؟ کہا: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کھجور کے ایک باغ کے پھلوں میں ان کے پھلنے سے پہلے بیع سلم کی، لیکن اس سال کھجور کے درخت میں پھل آیا ہی نہیں، تو خریدار نے کہا: یہ درخت میرے رہیں گے جب تک ان میں کھجور نہ پھلے، اور بیچنے والے نے کہا: میں نے تو صرف اسی سال کا کھجور تیرے ہاتھ بیچا تھا، چنانچہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں معاملہ لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے والے سے کہا: ”کیا اس نے تمہارے کھجور کے درختوں سے کچھ پھل لیے“؟ وہ بولا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم کس چیز کے بدلے اس کا مال اپنے لیے حلال کرو گے، جو تم نے اس سے لیا ہے، اسے واپس کرو اور آئندہ کھجور کے درختوں میں بیع سلم اس وقت تک نہ کرو جب تک اس کے پھل استعمال کے لائق نہ ہو جائیں“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2284]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/البیوع 58 (3467)، (تحفة الأشراف: 8595)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 21 (49)، مسند احمد (2/25، 49، 51، 58، 144) (ضعیف)» (اس کی سند میں نجرانی مبہم راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (3467) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 460