بنو تمیم کے ایک شیخ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں کہ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا، یا فرمایا: عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا، جو کاٹ کھانے والا ہو گا، مالدار اپنے مال کو دانتوں سے پکڑے رہے گا (کسی کو نہ دے گا) حالانکہ اسے ایسا حکم نہیں دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «ولا تنسوا الفضل بينكم»”اللہ کے فضل بخشش و انعام کو نہ بھولو یعنی مال کو خرچ کرو“(سورۃ البقرہ: ۲۳۸) مجبور و پریشاں حال اپنا مال بیچیں گے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاچار و مجبور کا مال خریدنے سے اور دھوکے کی بیع سے روکا ہے، اور پھل کے پکنے سے پہلے اسے بیچنے سے روکا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3382]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 10335)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/116) (ضعیف) (اس کے راوی '' شیخ من بنی تمیم '' مبہم ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ضرورت مند کے مال کو سستا خریدنے سے یا زبردستی کسی کا مال خریدنے سے اور دھوکہ کی بیع سے اور پختگی سے پہلے پھل بیچنے سے منع کیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ’’ شيخ من بني تميم ‘‘ مجهول كما قال المنذري (انظر عون المعبود264/3) والحديث ضعفه البغوي (شرح السنة : 2104) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 121
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3382
فوائد ومسائل: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم مجبوری کی بیع دو طرح سے ہے۔ کوئی ظالم کسی کو جبر واکراہ سے اپنی چیز فروخت کرنے پرمجبور کردے تو یہ بیع فاسد ہے۔ انسان مقروض ہو اورقرضے کی ادایئگی کےلئے مجبور اپنی لازمی ضرورت کی چیزیں اونے پونے داموں فروخت کرنے لگے۔ یہ بیع ہوتوجاتی ہے۔ مگر یہ بات آداب اسلامی کے خلاف ہے کہ اونے پونے ایسی چیزیں خریدی جایئں۔ مقروض کو مہلت دی جانی چاہیے۔ اور اس کے ساتھ حتیٰ الامکان تعاون کیا جانا چاہے۔ جیسےکہ سورہ بقرہ آیت نمبر 237 میں آیا ہے۔ البتہ مقروض زائد ضرورت چیزوں کوفروخت کردے تو کوئی حرج نیں اسی طرح حربی لوگوں کو بھی علی الاطلاق اپنی اشیاء بیچنے پرمجبور کرنا جائز نہیں تاہم اگر انہیں سزا دینا مقصود ہو تو سزا کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے۔ کہ انہیں اپنی چیزیں بیچ کر نکل جانے کا حکم دے دیا جائے جس طرح بنو نضیر کے معاملے میں کیا گیا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3382