الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
20. باب فِي بَيْعِ الْعَرَايَا
20. باب: بیع عرایا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 3363
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ التَّمْرِ بِالتَّمْرِ، وَرَخَّصَ فِي الْعَرَايَا أَنْ تُبَاعَ بِخَرْصِهَا يَأْكُلُهَا أَهْلُهَا رُطَبًا".
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (درخت پر پھلے) کھجور کو (سوکھے) کھجور کے عوض بیچنے سے منع فرمایا ہے لیکن عرایا میں اس کو «تمر» (سوکھی کھجور) کے بدلے میں اندازہ کر کے بیچنے کی اجازت دی ہے تاکہ لینے والا تازہ پھل کھا سکے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 3363]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 83 (2191)، المساقاة 17 (2384)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1540)، سنن الترمذی/البیوع 64 (1303)، سنن النسائی/البیوع 33 (4548)، (تحفة الأشراف: 4646)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/2) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مثلاً عرایا والے کسی شخص کے پاس سوکھی کھجور تھی لیکن «رطب» یعنی تر کھجور اس کے پاس کھانے کو نہ تھی، اس کو باغ والے نے ایک درخت کی تر کھجوریں اندازہ کر کے سوکھی کھجور سے فروخت کر دیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2191) صحيح مسلم (1540)

   صحيح مسلمنهى عن بيع الثمر بالتمر ذلك الربا تلك المزابنة رخص في بيع العرية النخلة والنخلتين يأخذها أهل البيت بخرصها تمرا يأكلونها رطبا
   صحيح مسلمرخص رسول الله في بيع العرية بخرصها تمرا
   سنن أبي داودنهى عن بيع التمر بالتمر رخص في العرايا أن تباع بخرصها يأكلها أهلها رطبا

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3363 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3363  
فوائد ومسائل:
عرایا عریہ کی جمع ہے۔
اس کا مطلب ومفہوم یہ ہے کہ عاریتا کسی کھجور کے ایک یا دو درخت دے دینا یہ حسن سلوک کا عمل ہے۔
جب اپنے باغ کے درختوں میں سے کوئی درخت عاریتاً ہمسایئوں یا دوسرے مستحقین کو دیا جائے تو ان کا بار بار آنا جانا شاق گزر سکتا ہے۔
اپنے ہی درختوں کے دیئے ہوئے تازہ پھل کا خشک کھجور سے تبادلہ رسول اللہ ﷺ نے جائز قرار دیا۔
تاکہ حسن سلوک کا عمل بار بار آنے جانے کی زحمت کے سبب منقطع نہ ہوجائے۔
غیر متعین مقدار کے تازہ پھل کی خشک پھل سےبیع کو ممنوع قرار دیا گیا۔
توعرایا کے مستحسن اقدام کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا عرایا میں تازہ کھجور کا خشک کھجور سے تبادلہ کوئی تجارتی عمل نہیں۔
رسول اللہ ﷺنے اس اجازت کو پانچ وسق کی مقدار تک محدود فرما دیا ہے۔
(صحیح البخاري، باب بیع التمر علی رؤوس النخل بالذھب أو الفضة، حدیث:2190)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3363   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3887  
بشیر بن یسار اپنے محلہ کے بعض صحابہ سے بیان کرتے ہیں، ان میں حضرت سہل بن ابی حشمہ ﷺ بھی داخل ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تازہ پھل کو خشک پھل کے عوض بیچنے سے منع فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سود ہے، یہ مزابنہ ہے۔ مگر آپﷺ نے عریہ بیچنے کی رخصت دی، یہ ایک دو کھجوریں ہیں یعنی ان کا پھل جسے کوئی گھرانہ، اندازہ کر کے خشک کھجوروں کے عوض لے لیتا ہے تاکہ تازہ کھجوریں کھا سکیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3887]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ کی حرمت کا سبب سود قرار دیا ہے اور ظاہر بات ہے اگر تازہ کھجوریں خشک کھجوروں کے عوض برابر،
برابر بھی دی جائیں تو تازہ کھجوروں نے خشک ہو کر کم ہونا ہے۔
اس طرح کمی و بیشی ہو جائے گی جو سود ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3887