الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ
لین دین کے مسائل
14. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ إِلاَّ فِي الْعَرَايَا:
14. باب: تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا حرام ہے مگر عریہ میں درست ہے۔
حدیث نمبر: 3887
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ دَارِهِمْ مِنْهُمْ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ، وَقَالَ: ذَلِكَ الرِّبَا، تِلْكَ الْمُزَابَنَةُ "، إِلَّا أَنَّهُ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرِيَّةِ النَّخْلَةِ وَالنَّخْلَتَيْنِ، يَأْخُذُهَا أَهْلُ الْبَيْتِ بِخَرْصِهَا تَمْرًا يَأْكُلُونَهَا رُطَبًا ".
سلیمان بن بلال نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے بُشیر بن یسار سے، انہوں نے اپنے گھرانے سے تعلق رکھنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ سے، جن میں سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (درخت پر لگے) پھل کو خشک کھجور کے عوض فروخت کرنے سے منع فرمایا۔ اور آپ نے فرمایا: "یہ سود ہے، یہی (بیع) مزابنہ (کھجور کے درخت پر لگے ہوئے پھل کو خشک کھجور کے عوض فروخت کرنا) ہے۔" ہاں، البتہ آپ نے عریہ کو بیچنے یا خریدنے کی اجازت دی (عَرِیہ یہ ہے) کہ کوئی خاندان ایک دو کھجور کے درخت (جو بطور عطیہ دے گئے) ان سے حاصل ہونے والی خشک کھجور کے اندازے کے مطابق لے لیں تاکہ وہ اس کا تازہ پھل کھائیں (اور جنہیں درخت دیے گئے ہیں، انہیں خشک کھجور دے دیں
بشیر بن یسار اپنے محلہ کے بعض صحابہ سے بیان کرتے ہیں، ان میں حضرت سہل بن ابی حشمہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی داخل ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تازہ پھل کو خشک پھل کے عوض بیچنے سے منع فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سود ہے، یہ مزابنہ ہے۔ مگر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ بیچنے کی رخصت دی، یہ ایک دو کھجوریں ہیں یعنی ان کا پھل جسے کوئی گھرانہ، اندازہ کر کے خشک کھجوروں کے عوض لے لیتا ہے تاکہ تازہ کھجوریں کھا سکیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1540
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح مسلمنهى عن بيع الثمر بالتمر ذلك الربا تلك المزابنة رخص في بيع العرية النخلة والنخلتين يأخذها أهل البيت بخرصها تمرا يأكلونها رطبا
   صحيح مسلمرخص رسول الله في بيع العرية بخرصها تمرا
   سنن أبي داودنهى عن بيع التمر بالتمر رخص في العرايا أن تباع بخرصها يأكلها أهلها رطبا

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3887 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3887  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ کی حرمت کا سبب سود قرار دیا ہے اور ظاہر بات ہے اگر تازہ کھجوریں خشک کھجوروں کے عوض برابر،
برابر بھی دی جائیں تو تازہ کھجوروں نے خشک ہو کر کم ہونا ہے۔
اس طرح کمی و بیشی ہو جائے گی جو سود ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3887   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3363  
´بیع عرایا جائز ہے۔`
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (درخت پر پھلے) کھجور کو (سوکھے) کھجور کے عوض بیچنے سے منع فرمایا ہے لیکن عرایا میں اس کو «تمر» (سوکھی کھجور) کے بدلے میں اندازہ کر کے بیچنے کی اجازت دی ہے تاکہ لینے والا تازہ پھل کھا سکے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3363]
فوائد ومسائل:
عرایا عریہ کی جمع ہے۔
اس کا مطلب ومفہوم یہ ہے کہ عاریتا کسی کھجور کے ایک یا دو درخت دے دینا یہ حسن سلوک کا عمل ہے۔
جب اپنے باغ کے درختوں میں سے کوئی درخت عاریتاً ہمسایئوں یا دوسرے مستحقین کو دیا جائے تو ان کا بار بار آنا جانا شاق گزر سکتا ہے۔
اپنے ہی درختوں کے دیئے ہوئے تازہ پھل کا خشک کھجور سے تبادلہ رسول اللہ ﷺ نے جائز قرار دیا۔
تاکہ حسن سلوک کا عمل بار بار آنے جانے کی زحمت کے سبب منقطع نہ ہوجائے۔
غیر متعین مقدار کے تازہ پھل کی خشک پھل سےبیع کو ممنوع قرار دیا گیا۔
توعرایا کے مستحسن اقدام کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا عرایا میں تازہ کھجور کا خشک کھجور سے تبادلہ کوئی تجارتی عمل نہیں۔
رسول اللہ ﷺنے اس اجازت کو پانچ وسق کی مقدار تک محدود فرما دیا ہے۔
(صحیح البخاري، باب بیع التمر علی رؤوس النخل بالذھب أو الفضة، حدیث:2190)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3363