اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا، تو ہمارے حصہ میں بارہ بارہ اونٹ آئے، اور ایک ایک اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بطور انعام دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے برد بن سنان نے نافع سے عبیداللہ کی حدیث کے ہم مثل روایت کیا ہے اور اسے ایوب نے بھی نافع سے اسی کے مثل روایت کیا، مگر اس میں یہ ہے کہ ہمیں ایک ایک اونٹ بطور نفل دئیے گئے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2745]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/ الجہاد 12 (1749)، (تحفة الأشراف: 8175)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/55) (صحیح)»
قسم بيننا غنيمتنا فأصاب كل رجل منا اثني عشر بعيرا بعد الخمس وما حاسبنا رسول الله بالذي أعطانا صاحبنا ولا عاب عليه بعد ما صنع فكان لكل رجل منا ثلاثة عشر بعيرا بنفله
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2745
فوائد ومسائل: مذکور بالا احادیث میں جمع وتطبیق یہی ہے۔ کہ امیر نے جو انعام دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی توثیق فرمائی۔ جس کو براہ راست رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر دیا گیا جو صحیح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2745
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2741
´لشکر کے کسی ٹکڑے کو انعام میں کچھ زیادہ دینے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجد کی جانب ایک لشکر میں بھیجا اور اس لشکر کا ایک دستہ دشمن سے مقابلہ کے لیے بھیجا گیا، پھر لشکر کے لوگوں کو بارہ بارہ اونٹ ملے اور دستہ کے لوگوں کو ایک ایک اونٹ بطور انعام زیادہ ملا تو ان کے حصہ میں تیرہ تیرہ اونٹ آئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2741]
فوائد ومسائل: لشکر میں سے کوئی دستہ جب کوئی خاص کارروائی کرے۔ تو اس کی مناسبت سے اسے اضافی انعام دینا مستحب ہے۔ جب کہ عام غنیمت میں سبھی شریک ہوں گے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2741