مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 216
´انسانی پیشاب نجس ہے`
«. . . فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى، كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَكَانَ الْآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا، قَالَ: لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا أَوْ إِلَى أَنْ يَيْبَسَا".، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِب الْقَبْرِ: كَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ سِوَى بَوْلِ النَّاسِ . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھجور کی) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے (ایک ایک ٹکڑا) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 216]
� تشریح:
اس حدیث سے عذاب قبر ثابت ہوا۔ یہ دونوں قبروں والے مسلمان ہی تھے اور قبریں بھی نئی تھیں۔ ہری ڈالیاں تسبیح کرتی ہیں اس وجہ سے عذاب میں کمی ہوئی ہو گی۔ بعض کہتے ہیں کہ عذاب کا کم ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ہوا تھا ان ڈالیوں کا اثرنہ تھا۔ «والله اعلم بالصواب»
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 216
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 218
´باب:۔۔۔`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ، فَقَالَ: " إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ: لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا "، وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَحَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا مِثْلَهُ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ . . . .»
”. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا) کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے۔ ابن المثنی نے کہا کہ اس حدیث کو ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، انہوں نے مجاہد سے اسی طرح سنا۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابٌ:: 218]
تشریح:
«لايستتر من البول» کا ترجمہ یہ بھی ہے کہ وہ پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا۔ بعض روایات میں «لا يستنزه» آیا ہے جس کا مطلب یہ کہ پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہیں کیا کرتا تھا۔ مقصد ہر دو لفظوں کا ایک ہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 218
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1378
1378. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہواتو آپ نے فرمایا:”ان دونوں کو عذاب ہورہاہے اور کسی بڑے گناہ کی پاداش میں انھیں سزا نہیں دی جارہی۔“ پھر فرمایا:”کیوں نہیں!ایک ان میں سے چغلی کھاتا پھرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب (کے چھینٹوں) سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔“ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: پھر آپ نے (کھجور کی) ایک تازہ شاخ لی اور اسکے دو ٹکڑے کیے، پھر ہر ایک کو قبر پر گاڑ کر فرمایا:”جب تک یہ خشک نہ ہوں گے امید ہے کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1378]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
قَالَ الزَّيْنُ بْنُ الْمُنِيرِ الْمُرَادُ بِتَخْصِيصِ هَذَيْنِ الْأَمْرَيْنِ بِالذِّكْرِ تَعْظِيمُ أَمْرِهِمَا لَا نَفْيُ الْحُكْمِ عَمَّا عَدَاهُمَا فَعَلَى هَذَا لَا يَلْزَمُ مِنْ ذِكْرِهِمَا حَصْرُ عَذَابِ الْقَبْرِ فِيهِمَا لَكِنِ الظَّاهِرُ مِنَ الِاقْتِصَارِ عَلَى ذِكْرِهِمَا أَنَّهُمَا أَمْكَنُ فِي ذَلِكَ مِنْ غَيْرِهِمَا وَقَدْ رَوَى أَصْحَابُ السُّنَنِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ اسْتَنْزِهُوا مِنَ الْبَوْلِ فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْهُ ثُمَّ أَوْرَدَ المُصَنّف حَدِيث بن عَبَّاسٍ فِي قِصَّةِ الْقَبْرَيْنِ وَلَيْسَ فِيهِ لِلْغِيبَةِ ذِكْرٌ وَإِنَّمَا وَرَدَ بِلَفْظِ النَّمِيمَةِ وَقَدْ تَقَدَّمَ الْكَلَامُ عَلَيْهِ مُسْتَوْفًى فِي الطَّهَارَةِ (فتح الباري)
یعنی زین بن منیر نے کہا کہ باب میں صرف دو چیزوں کا ذکر ان کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ دوسرے گناہوں کی نفی مراد نہیں۔
پس ان کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ عذاب قبر ان ہی دو گناہوں پر منحصر ہے۔
یہاں ان کے ذکر پر کفایت کرنا اشارہ ہے کہ ان کے ارتکاب کرنے پر عذاب قبر کا ہونا زیادہ ممکن ہے۔
حدیث ابوہریرہ ؓ کے لفظ یہ ہیں کہ پیشاب سے پاکی حاصل کرو، کیونکہ عام طور پر عذاب قبراسی سے ہوتا ہے۔
باب کے بعد مصنف ؒ نے یہاں حدیث ابن عباس ؓ سے دو قبروں کا قصہ نقل فرمایا۔
اس میں غیبت کا لفظ نہیں ہے بلکہ چغل خور کا لفظ وارد ہوا ہے مزید وضاحت کتاب الطہارۃ میں گزر چکی ہے۔
غیبت اور چغلی قریب قریب ایک ہی قسم کے گناہ ہیں اس لیے ہر دو عذاب قبر کے اسباب ہیں
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1378
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6055
6055. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے کسی باغ تشریف لائے تو آپ نے دو انسانوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان کو عذاب دیا جا رہا ہے لیکن کسی بڑی بات (جس سے بچنا مشکل ہو) کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا حالانکہ یہ کبیرہ گناہ ہیں ان میں سے ایک پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا۔“ پھر آپ نے کھجور کی ایک تازہ شاخ منگوائی اور اس کے دو ٹکڑے کیے۔ ایک ٹکڑا ایک قبر پر اور دوسرا دوسری قبر پر گاڑ دیا پھر فرمایا: ”ممکن ہے ان کے عذاب میں اس وقت تک تخفیف کر دی جائے جب تک یہ خشک نہ ہو جائیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6055]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں بڑے گناہ سے وہ گناہ مراد ہیں جن پر حد مقرر ہے، جیسے زنا، چوری وغیرہ اس لئے ترجمہ باب کے خلاف نہ ہوگا، ترجمہ باب میں کبیرہ سے لغوی مراد ہے کہتے ہیں کہ ہرا درخت یا ہری ٹہنی اللہ کی تسبیح کرتے ہے اس کی برکت سے صاحب قبر پر تخفیف ہو جاتی ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ آپ ہی کی خصوصیت تھی اور کسی کے لئے یہ نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6055
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1361
1361. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ دو قبروں کے پاس سے گزرے جن (میں مدفون مردوں) کو عذاب دیاجارہا تھا۔آپ نے فرمایا:”ان دونوں کوعذاب دیاجارہا ہے۔ لیکن یہ عذاب کسی مشکل بات کیوجہ سے نہیں۔ ان میں سے ایک پیشاب سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا تھا۔“ اس کے بعد آپ نے کھجور کی تازہ شاخ لی اور اسے چیر کر دو حصے کردیے، پھر ہر ایک قبر پر ایک ایک گاڑ دی۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ!آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟آپ نے فرمایا:”امید ہے کہ جب تک یہ دونوں ٹکڑے خشک نہ ہوں گے ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1361]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے ایک قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگادی تھیں۔
بعضوں نے یہ سمجھا کہ یہ مسنون ہے۔
بعضے کہتے ہیں کہ یہ آنخضرت ﷺ کا خاصہ تھا اور کسی کو ڈالیاں لگانے میں کوئی فائدہ نہیں۔
چنانچہ امام بخاری ؒ ابن عمر ؓ کا اثر اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے لائے۔
ابن عمر اور بریدہ ؓ کے اثر کو ابن سعد نے وصل کیا۔
خارجہ بن زید کے اثر کو امام بخاری ؒ نے تاریخ صغیر میں وصل کیا۔
اس اثر اور اس کے بعد کے اثر کو بیان کرنے سے امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ قبروالے کو اس کے عمل ہی فائدہ دیتے ہیں۔
اونچی چیز لگانا جیسے شاخیں وغیرہ یا قبر کی عمارت اونچی بنانا یا قبر پر بیٹھنا یہ چیزیں ظاہر میں کوئی فائدہ یا نقصان دینے والی نہیں ہیں۔
یہ خارجہ بن زید اہل مدینہ کے سات فقہاءمیں سے ہیں۔
انہوں نے اپنے چچا یزید بن ثابت سے نقل کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو مکروہ ہے جو اس پر پاخانہ یا پیشاب کرے۔
(وحیدي)
علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
قال ابن رشید ویظهر من تصرف البخاري أن ذلك خاص بهما فلذلك عقبه بقول ابن عمر إنما یظله عمله۔
(فتح الباري)
یعنی ابن رشید نے کہا کہ امام بخاری ؒ کے تصرف سے یہی ظاہر ہے کہ شاخوں کے گاڑنے کا عمل ان ہی دونوں قبروں کے ساتھ خاص تھا۔
اس لیے امام بخاری ؒ اس ذکر کے بعد ہی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قول لائے ہیں کہ اس مرنے والے کا عمل ہی اس کو سایہ کرسکے گا۔
جن کی قبر پر خیمہ دیکھا گیا تھا وہ عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق ؓ تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ خیمہ دور کرادیا تھا۔
قبروں پر بیٹھنے کے بارے میں جمہور کا قول یہی ہے کہ ناجائز ہے۔
اس بارے میں کئی ایک احادیث بھی وارد ہیں، چند حدیث ملاحظہ ہوں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهُ، فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ» رواہ الجماعة إلا البخاري والترمذي۔
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اگر کسی انگارے پر بیٹھے کہ وہ اس کے کپڑے اور جسم کو جلادے تو اس سے بہتر ہے کہ قبر پر بیٹھے۔
دوسری حدیث عمروبن حزم سے مروی ہے کہ رَآنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكَأً عَلَى قَبْرٍ، فَقَالَ:
" لَا تُؤْذِ صَاحِبَ هَذَا الْقَبْرِ - أَوْ لَا تُؤْذِهِ - " رواہ أحمد۔
یعنی مجھے آنحضرت ﷺ نے ایک قبر پر تکیہ لگائے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اس قبر والے کو تکلیف نہ دے۔
ان ہی احادیث کی بناپر قبروں پر بیٹھنا منع ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا فعل جو مذکور ہوا کہ آپ قبروں پر بیٹھا کرتے تھے۔
سو شاید ان کا خیال یہ ہوکہ بیٹھنا اس کے لیے منع ہے جو اس پر پاخانہ پیشاب کرے۔
مگر دیگر احادیث کی بناپر مطلق بیٹھنا بھی منع ہے، جیسا کہ مذکور ہوا یا ان کا قبر پر بیٹھنے سے مراد صرف ٹیک لگانا ہے نہ کہ اوپر بیٹھنا۔
حدیث مذکور سے قبر کا عذاب بھی ثابت ہوا جو برحق ہے جو کئی آیات قرآنی واحادیث نبوی سے ثابت ہے۔
جو لوگ عذاب قبر کا انکار کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں۔
وہ قرآن وحدیث سے بے بہرہ اور گمراہ ہیں۔
هداهم اللہ۔
آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1361
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6052
6052. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس گزرے تو فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب دیا جارہا ہے اور (بظاہر) یہ کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب میں گرفتار نہیں ہیں بلکہ ایک اپنے پیشاب سے اجتناب نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا پھر آپ نے کھجور کی ایک تازہ شاخ منگوائی اور اسے چیر کردو ٹکڑے کر دیے اور ایک قبر پر ایک شاخ اور دوسری قبر پر دوسری شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6052]
حدیث حاشیہ:
یہ ہری ٹہنی گاڑنے کا عمل آ پ کے ساتھ خاص تھا۔
اس لئے کہ آپ کو قبروں والوں کا صحیح حال معلوم ہو گیا تھا اور یہ معلوم ہونا بھی آپ ہی کے ساتھ خاص تھا۔
آج کوئی نہیں جان سکتا کہ قبر والا کس حال میں ہے، لہٰذا کوئی اگر ٹہنی گاڑے تو وہ بے کار ہے، واللہ أعلم بالصواب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6052
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6052
´ غیبت کا بیان`
«. . . وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ سورة الحجرات آية 12 . . .»
”. . . اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «ولا يغتب بعضكم بعضا أيحب أحدكم أن يأكل لحم أخيه ميتا فكرهتموه واتقوا الله إن الله تواب رحيم» ”اور تم میں بعض بعض کی غیبت نہ کرے کیا تم میں کوئی چاہتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، تم اسے ناپسند کرو گے اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: Q6052]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6052 کا باب: «بَابُ الْغِيبَةِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں غیبت کا ذکر فرمایا، جبکہ تحت الباب غیبت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ نمیمہ (چغل خوری) کا ذکر ہے۔ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کے لیے ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«بوّب على الغيبة، و ذكر النميمة تنبيهًا على اجتماعهما فى المعني، و هو الذكر بظهر الغيب بما يكره الإنسان أن يذكر عنه، و ألحق الغيبة بالنميمة بطريق الأولى، إذا النميمة لا يكون فيها تنقيص، و الغيبة لا تخلوا منه، فهي أحرم.» (2)
”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں غیبت کا ذکر فرمایا اور حدیث میں چغل خوری کا بیان ہے، جو کہ تنبیہ ہے اس بات کی کہ اجتماعیت کے اعتبار سے یہ دونوں معنی میں یکساں ہیں، غیبت میں انسان کے اس کی پیٹھ پیچھے وہ باتیں کی جاتی ہیں جس کو وہ اپنے سامنے بھی نہ پسند کرتا ہے، لہذا غیبت اور نمیمہ ملحق ہیں ایک دوسرے کے ساتھ بطریق اولی، بعض نمیمہ میں تنقیص نہیں ہوتی اور غیبت اس چیز سے خالی نہیں تو پھر یہ زیادہ حرام شے ہوئی۔“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وقد تقدم شرحه فى كتاب الطهارة، و ليس فيه ذكر الغيبة بل فيه يمشي بالنميمة، قال ابن التين: إنما ترجم بالغيبة و ذكر النميمة لأن الجامع بينهما ذكر ما يكرهه المقبول فيه بالظهر الغيب، و قال الكرماني: الغيبة نوع من النميمة لأن لو سمع المنقول عنه ما نقل عنه لغمه، قلت: الغيبة قد توجد فى بعض صور النميمة و هو أن يذكره فى غيبته بما فيه مما يسوؤه قاصدًا بذالك الفساد، فاحتمل أن تكون قصة الذى كان يعزب فى قبره كانت كذالك، و يحتمل أن يكون أشار إلى ما رد فى بعض طرقه بلفظ الغيبة صريحًا، و هو ما أخرجه هو فى ”الأدب المفرد“ من حديث جابر، قال: كنا مع النبى صلى الله عليه وسلم فأتي قبرين فذكر فيه نحو حديث الباب و قال ”فيه أما أحدهما فكان يغتاب الناس“، الحديث، و أخرج أحمد و الطبراني بإسناد صحيح عن أبى بكرة، قال: مر النبى صلى الله عليه وسلم بقبرين فقال: ”إنهما يعذبان، و ما يعذبان فى كبير و بكي وفيه و ما يعذبان إلا فى الغيبة والبول.“» (1)
اس حدیث کی شرح کتاب الطہارۃ میں مشروحا گزر چکی ہے، اس میں غیبت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ چغلی کا ہے۔ ابن التین رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ترجمۃ امام بخاری رحمہ اللہ نے غیبت اور ذکر نمیمہ پر قائم فرمایا ہے، کیوں کہ دونوں کے مابین جامع اس امر کا کہ کسی کی غیر موجودگی میں ذکر کرنا جسے منقول فیہ برا سمجھے۔ علامہ کرمانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: غیبت نمیمہ کی ایک قسم ہے، کیوں کہ اگر منقول فیہ یہ بات جو اس کی بابت نقل کی جا رہی ہے سن لے تو اسے دکھ ہو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اضافہ کرتے ہیں کہ غیبت کبھی نمیمہ کی بعض صورتوں میں بھی پائی جاتی ہے، مثلا کسی کی غیر موجودگی میں اسے ناگوار لگنے والا تذکرہ فساد پھیلانے کے ارادہ سے کرنا، تو محتمل ہے کہ اس شخص کا قصہ جسے اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا تھا وہ بھی اسی طرح کا ہو، اور یہ بھی احتمال ہے کہ (امام بخاری رحمہ اللہ) اس کے بعض طرق کی طرف اشارہ کر رہے ہوں جس میں صراحت کے ساتھ غیبت کے الفاظ موجود ہیں، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب الادب المفرد میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اسی روایت میں ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو قبروں پر آئے، آگے حدیث باب کی مانند ذکر فرمایا، اس میں یہ ہے کہ «أما أحدهما كان يغتاب الناس»، مسند احمد اور طبرانی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر سے گزرے، جس میں مدفون شخص کو عذاب ہو رہا ہے اور «و مايعذبان فى كبير» پھر آپ روئے، اس میں یہ ہے کہ «و مايعذبان إلا فى الغيبة والبول»، یعنی ان دونوں کو غیبت اور پیشاب کی وجہ سے عذاب دیا جارہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے یہ واضح ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دراصل احمد اور طبرانی کی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «الغيبة» کے الفاظ موجود ہیں جو کہ حدیث باب سے تعلق رکھتے ہیں۔
علامہ بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”امام بخاری رحمہ اللہ نے باب تو «الغيبة» پر قائم فرمایا، جبکہ حدیث «النميمة» پر پیش فرمائی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے، اس میں انسان کی وہ برائی مقصود ہوتی ہے جسے وہ نا پسند کرتا ہے، اور غیبت زیادہ سخت ہے نمیمہ سے، کیوں کہ اس میں زیادہ تنقیص پائی جاتی ہے بخلاف نمیمہ کے اور یہ نمیمہ کے حکم میں ہے جو اس سے زیادہ سخت ہے (گناہ کے اعتبار سے)۔“
بعض شارحین نے کہا کہ روایت میں نمیمہ یعنی چغل خوری کا ذکر ہے اور چغل خوری اور غیبت دونوں حرام ہیں اور گناہ کے اعتبار سے مشترک بھی ہیں۔(1)
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
«و لم يذكر فى الحديث إلا النميمة فأنه يشير إلى انها وردت كذالك لكن على غير شرطه وقد رواها ابن ماجة فى سننه.» (2)
”امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے وہ چغل خوری کے متعلق ہے، پس آپ نے اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «الغيبة» کے الفاظ ہیں، جسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر فرمایا، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو اس لیے درج نہیں فرمایا کہ وہ آپ کی شرط پر نہیں تھی۔“
ان تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ بعض شارحین کے مطابق مناسبت یوں ہے کہ نمیمہ اور غیبہ گناہ کے اعتبار سے یکساں ہیں، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں غیبت کا ذکر فرمایا اور حدیث جو ذکر فرمائی اس میں چغل خوری کا ذکر ہے۔
دوسری مناسبت یہ ہے کہ احمد، طبرانی سے صحیح سند سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جسے عذاب دیا جا رہا تھا، اس کے بارے میں فرمایا:
«انهما يعذبان فكان يغتاب الناس.» (3)
پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 179
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 216
´پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا کبیرہ گناہ ہے`
«. . . قَالَ:" مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَكَّةَ، فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى، كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ (وہاں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 216]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے والے کو کبیرہ گناہ کا مرتکب ٹھہرایا۔ امام بخاری نے باب کے تحت جو حدیث پیش کی ہے اس میں بھی یہی مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے آپ نے اس جرم کو کبیرہ گناہ قرار دیا یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔ رہی بات یہ کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی بڑے گناہ کے سبب نہیں، پھر آپ نے خود ہی فرما دیا کہ ہاں بڑا گناہ ہے تو اس تعارض کا کیا جواب ہو گا؟
اس تعارض کا جواب کئی طریقوں سے دیا جا سکتا ہے۔
➊ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت اس کا علم نہ ہو گا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی گئی کہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا اور غیبت کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
➋ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اس فعل کو کبیرہ نہیں کہا: اس لیے کہ لوگوں کے نزدیک اس فعل کو کبیرہ میں شمار نہ کیا جاتا ہو لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کے بارے میں آگاہی دے دی کہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔
➌ یہ بھی ممکن ہے کہ ابتداء میں شریعت نے اس فعل کو کبیرہ گناہوں میں شمار نہ کیا ہو لیکن بعد میں اسے کبیرہ گناہ کہہ کر اس فعل کے قبیح ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہو جس کی تائید صحیح ابن حبان کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں کہ: «يعذبان عذابا شديدا فى ذنب هين» [فتح الباري ج1 ص422] ”ان دونوں پر سخت عذاب ہو رہا ہے ہلکے گناہ میں۔“
↰ ابن حبان کی اس حدیث نے واضح کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے فرمایا تھا کہ کسی کبیرہ گناہ کے سبب ان کو عذاب نہیں دیا جا رہا تو اس سے مراد یہ ہے کہ گناہ تو ہلکا تھا لیکن عذاب کے اعتبار سے یہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔
◈ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وما يعذبان بكبير يعنى عندكم وهو كبير يعنى عند الله كقوله تعالى: ” وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمٌ“ الآية واختلفوا فى الكبائر، فقيل: الكبائر سبع، وقيل تسع . . . .» “ [الكواكب الدراري ت3 ص63]
ان دونوں کو قبر میں کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا تھا یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ہے (کہ پیشاب سے نہ بچنا چھوٹا گناہ ہے مگر) وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کبیرہ گناہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا! « ﴿وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمٌ﴾ » ”اور تم اسے معمولی سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔“ [النور: 15]
◈ عبداللہ بن سالم البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«واختلف فى معنى قوله: (وإنه كبير) فقيل: يحتمل إنه صلى الله عليه وسلم ظن ان ذالك غير كبير، فأوحي اليه فى الحال بأنه كبير، وتعقب، بأنه يستلزم أن يكون نسخاً، وهو لا يدخل الخبر، وأجيب: بأن الخبر بالحكم يجوز نسخه، فقوله ”وما يعذبان فى كبير“ اخبار الحكم فاذا اوحي اليه انه كبير، فأخبر به كان نسخاً لذالك الحكم» “
[ضياء الساري فى مسالك ابواب البخاري: ج 3، ص 502]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ”کہ وہ کبیرہ گناہ ہے۔“ اس میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ یہ احتمال ہے کہ آپ علیہ السلام کا یہ خیال تھا کہ (پیشاب سے نہ بچنا) کبیرہ گناہ نہیں ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے یہ خبر دی گئی کہ وہ کبیرہ گناہ ہے۔ اور تعاقب یہ ہے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ پہلا حکم منسوخ ہو گیا اور وہ خبر میں داخل نہیں ہے۔ اس کا جواب دیا گیا کہ جب خبر حکم کے ساتھ ہو تو اس کا منسوخ ہونا جائز ہے (اہل علم کے نزدیک یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ نسخ احکام میں ہوتا ہے اخبار میں نہیں)۔“
↰ امام عبداللہ بن سالم رحمہ اللہ کی اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا حکم منسوخ ہو گا اور بعد کا حکم ناسخ ہے۔
◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ان دونوں کو کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی گئی کہ وہ کبیرہ گناہ ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں ہاں، وہ کبیرہ گناہ ہے۔“ [شرح تراجم ابواب البخاري، ص92]
◈ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ابن دقیق العید وغیرہ فرماتے ہیں کہ وہ مشقت کے اعتبار سے بڑا گناہ نہیں ہے مگر وعید کے اعتبار سے کبیرہ گناہ میں داخل ہے . جیسا کہ صحیح ابن حبان کی حدیث میں ہے کہ ”ان دونوں کو سخت عذاب ہو رہا ہے ہلکے گناہ کی وجہ سے۔“ [ارشادالساري: ج1، ص287]
اور کبیرہ گناہ میں اختلاف ہے (کہ ان کی تعداد کیا ہے) بعض نے کہا کہ وہ سات ہیں بعض نے کہا کہ وہ نو کی تعداد میں ہیں اور بھی کہا گیا ہے کہ ہر معصیت، ہر وہ گناہ جس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ مہر لگاتا ہے، آگ کی یا لعنت کرتا، غضب کرتا ہے یا عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔
◈ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا کبیرہ گناہوں کے بارے میں کہ کیا وہ سات ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ سات سو کے قریب ہیں۔
◈ امام ذھبی رحمہ اللہ (المتوفی 748ھ) نے کبیرہ گناہوں کے بارے میں ایک ضخیم کتاب تحریر فرمائی ہے جس میں آپ نے ستر (70) کبیرہ گناہوں کا ذکر فرمایا ہے اور اس میں پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے والے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ [ديكهئے كتاب الكبائر للذهبي ص133]
◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان دونوں کو کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا پھر آپ علیہ السلام پر وحی کی گئی کہ وہ کبیرہ گناہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں ہاں وہ بڑا گناہ ہے۔
گناہ کبیرہ کی تعریف میں علامہ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ نے بہت عمدہ بحث فرمائی ہے جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی جامع ہے کہ جس گناہ پر کسی طرح کی وعید آئی ہے یعنی حد شرعی جیسا کہ قتل، زنا اور چوری کرنا جہنم کی وعید یا لعنت وارد ہوئی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے:
”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔“ [الاحزاب]
ان گزارشات واقتباسات سے واضح ہوا کہ لوگوں کے نزدیک یہ چھوٹا گناہ ہے مگر عذاب کے اعتبار سے کبیرہ گناہ ہے۔ «والله اعلم»
فائدہ:
مذکورہ بالا حدیث میں واضح طور پر عذاب قبر کی وعید ہے اور واضح اشارہ موجود ہے کہ عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے کسی برزخی قبر کا کوئی شریعت میں وجود ہی نہیں ہے قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں قبر کا تصور اسی ارضی قبر کے ساتھ خاص ہے جہاں میت کو دفن کیا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:
«فلولاان لا تدافنو الدعوت الله ان يسمعكم من عذاب القبر»
”اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم مردے دفنانا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذاب قبر سنا دے۔“ [صحيح مسلم كتاب الجنة ونعيمها رقم 7213]
اس حدیث سے واضح طور پر یہ مسئلہ منکشف ہوا کہ عذاب قبر اسی جگہ ہوتا ہے جہاں میت کو دفن کیا جاتا ہے کیوں کہ اگر اس ارضی قبر کے علاوہ کوئی اور قبر کا تصور ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ کہ تم مردے دفنانا چھوڑ دو گے بغیر کسی مقصد کے ہو جاتے غور فرمائیں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنم کے عذاب کے لئے فرمایا؟ کیوں کہ جہنم میں کسی کو دفن نہیں کرتے اس ارضی قبر میں ہی دفن کرتے ہیں جہاں میت کو راحت یا عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں متعدد مقامات پر عذاب قبر کا ذکر فرمایا ہے اور اس پر مختلف قسم کے ابواب قائم کیے ہیں تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ عذاب قبر اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے۔ برزخی قبر کا تصور کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں بلکہ یہ صرف بدعتی گروہ کا خیال ہے۔۔۔۔
امام بخاری رحمہ اللہ ابواب قائم فرماتے ہیں کہ:
➊ «باب الدخول على الميت بعد الموت»
➋ «باب الرجل ينعي إلى أهل الميت بنفسه»
➌ «باب قول الرجل للمرأة عند القبر اصبري»
➍ «باب غسل الميت ووضؤه بالماء والسدر»
➎ «مواضع الوضؤ من الميت»
➏ «زيارة القبور»
➐ «كيف الاشعار للميت»
➑ «قول النبى صلى الله عليه وسلم يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه»
➒ «ما يكره عن النياحة على الميت»
➓ «الحنوط للميت»
⓫ «قول الميت وهو على الجنازة قدموني»
⓬ «يكره من اتخاذ المسجد على القبور»
⓭ «الصلاة على القبر بعد ما دفن»
⓮ «الميت يسمع خفق النعال»
⓯ «دفن الرجين والثلاثة قبر واحد»
⓰ «اللحد والشق فى القبر»
⓱ «بناءالمسجد على القبر»
⓲ «عذاب القبر من الغيبة والبول»
⓳ «المیت یعرض علیہ مقعدہ»
⓴ «ماجاء فی عذاب القبر»
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان مقامات پر قبر کی وضاحت کے ساتھ ساتھ مشکل الفاظ کی واضح تشریح بھی فرمائی ہے اور آپ رحمہ اللہ نے بخاری میں سترہ مقامات پر قبر کے نام سے ابواب قائم کئے ہیں۔ جو واضح طور پر دلیل ہے کہ عذاب قبر اسی ارضی قبر میں ہی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
« ﴿مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ﴾ » [طه 55/20]
”اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے تم سب کو دوبارہ نکال کھڑا کریں گے۔“
اس آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے زمین سے پیدا فرمایا ہے اور زمین میں ہی اس کو موت آئے گی اور اسی زمین ہی میں لوٹایا جائے گا اور وہ زمین سے ہی دوبارہ قیامت میں کھڑا کیا جائے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بے شک مؤمن اپنی قبر میں سرسبز و شاداب باغ میں ہوتا ہے اور اس کے لئے قبر ستر ہاتھ کشادہ کر دی جاتی ہے اور چودھویں رات کے چاند کی طرح اس میں روشن کر دی جاتی ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ آیت « ﴿فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا﴾ » [طه: 124] کیا ہوتا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول یہ بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عذاب قبر ہے جو قبر میں کافر کو دیا جاتا ہے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بے شک کافر پر ننانوے اژدھے مسلط کئے جاتے ہیں۔ جانتے ہو اژدھے کیا ہوتے ہیں؟ ایک اژدھا ستر سانپوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور ہر سانپ کے سات سر ہوتے ہیں جو کافر کو قیامت تک ڈستے اور کاٹتے رہیں گے۔“ [ابن حبان كتاب الجنائز رقم 3112]
امام ابن خزیمۃ رحمہ اللہ عذاب قبر پر دلائل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ!
باب ہے اس دلیل کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ”وہی ہے جس نے تمہیں زندہ کیا، پھر تمہیں موت دے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا۔“ سے اس بات کی نفی لازم نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ انسان کو دو مرتبہ سے زیادہ زندہ کرے۔
جو شخص عذاب قبر کا انکار کرے اور دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے کسی کو بھی قبر میں زندہ نہیں کرے گا اور دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کرے۔ « ﴿رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ﴾ » [المؤمن: 11] ”اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی۔“
اسی طرح کی دیگر آیات جن میں دو زندگیوں کا تذکرہ ہے ان سے دو سے زیادہ زندگیوں کی نفی لازم نہیں آتی، پس ان (دلائل) کو سمجھو اور مغالطہ نہ دو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
« ﴿اَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ﴾ » [البقرة: 259]
”یا جیسا کہ وہ شخص جو گزرا ایک بستی پر اور وہ گری پڑی تھی اپنی چھتوں پر وہ بولا کیونکر زندہ کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ اس کے مرے پیچھے، پھر اسے موت دے دی اللہ نے سو 100 سال تک پھر دوبارہ زندہ کر دیا اسے۔“
پس اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو قیامت سے پہلے دو مرتبہ زندہ فرمایا یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو دو مرتبہ زندہ کیا۔ دوسری مرتبہ تو اس وقت زندہ کیا جب کہ وہ پورے سو سال تک مردہ رہے۔ پھر قیامت کے دن تیسری مرتبہ انہیں زندہ کیا جائے گا۔
اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
« ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّـهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ﴾ » [البقرة: 243]
”کیا نہیں دیکھا آپ نے ان لوگوں کو جو نکل گئے تھے اپنے گھروں سے اور وہ ہزاروں (کی تعداد میں) تھے۔ موت سے ڈر کر پھر کہا انہیں اللہ نے کہ مر جاؤ پھر زندہ کر دیا ان کو“
میں نے اپنی پہلی کتاب، کتاب معانی القرآن میں بیان کیا ہے کہ بے شک یہ حکم امر تکوین ہے، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو مار ڈالا تھا جیسا کہ «موتوا» کے الفاظ واضح کر تے ہیں کیونکہ آیت کا سیاق اس پر دلالت کر تا ہے کہ ان پر موت طاری کر دی گئی تھی۔ پھر ان کو زندہ، مر جانے کے بعد کیا گیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: « ﴿ثُمَّ أَحْيَاهُمْ﴾ » پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو (دوبارہ) زندہ کیا۔ یہ الفاظ اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ وہ سب مر چکے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو موت کے بعد زندہ کیا۔ پس اس جماعت کو اللہ تعالیٰ نے قیامت سے پہلے دوسری مرتبہ زندہ کیا اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کو تیسری مرتبہ زندہ کرے گا۔ پس الکتاب اس پر دال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو تین مرتبہ زندہ کیا۔ ان جاہلوں کا یہ دعوٰی کہ ”قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ قبر میں کسی کو زندہ نہ کرے گا۔“ کیسے صحیح ہو سکتا ہے جبکہ کتاب اللہ اور سنن نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کے باطل دعویٰ کے خلاف بات ثابت ہو چکی ہے۔
لہٰذا عذاب قبر حق ہے اور اس کا تعلق اسی ارضی قبر کے ساتھ ہے اور یہ ایمان میں داخل ہے۔
◈ امام ابومحمد البر بھاری رحمہ اللہ (المتوفی 229ھ) فرماتے ہیں:
«والإيمان بعذاب القبر، ومنكر ونكير» [اتحاف القاري بالتعليقات على شرح السنة ج1 ص159]
امام ابومحمد البر بھاری رحمہ اللہ نے عذاب قبر اور منکر نکیر کو ایمان میں داخل فرمایا ہے۔
◈ عصر حاضر کے محقق الشیخ صالح الفوزان فرماتے ہیں:
«كذالك من عقيدة اهل السنة والجماعة، الايمان بعذاب القبر، ونعيم القبر، فالميت اما ان يعذب فى قبره، واما ان ينعم الي ان يعبث يوم القيمة» [اتحاف القاري ج1ص159]
اسی طرح اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے عذاب قبر پر اس کی نعمتوں پر، میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے یا اسی نعمتوں سے مالامال کیا جاتا ہے قیامت کے دن تک۔ لہٰذا عذاب قبر حق ہے . یہی عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا اور یہی عقیدہ سلف صالحین کا تھا جو اس ایمان، عقیدے سے منحرف ہو گا یقیناً وہ شخص ضال و مضل ہو گا۔ لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کی عذاب قبر سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ عذاب قبر کے بارے میں جاننے کے لئے ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے کتاب التوحید اور امام قرطبی کی التذکرہ کا مطالعہ مفید رہے گا۔
فائدہ نمبر2:
سابقہ احادیث کے مطالعہ کے بعد ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے والے کو عذاب قبر میں ملوث کیوں کیا جائے گا؟ قبر سے اس کی کیا مناسبت ہو گی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ «طهارت عن البول عبادات» اور اطاعت کا پہلا قدم ہے اور بعین اسی طرح سے دوسری طرف قبر کا معاملہ آخرت کے معاملات میں پہلا قدم ہے۔ بروز محشر سب سے پہلا سوال نماز کا ہو گا اور طہارت نماز سے مقدم ہے۔ یہی وجہ ہے عذاب قبر آخرت کی منزلوں میں پہلی منزل ہے . جب عبادات کی پہلی منزل میں کوتاہی ہو گی (یعنی طہارت میں) تو آخرت کی تمام منزلیں برباد ہو جائیں گی۔
اس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
«اتقوا البول فإنه أول ما يحاسب به العبد فى القبر» [رواه الطبراني بأسناد حسن]
”پیشاب سے بچو کیونکہ قبر میں بندے سے پہلا حساب اسی کے بارے میں ہو گا۔“
بعین یہی جواب عبداللہ بن سالم البصری رحمہ اللہ نے دیا ہے، آپ رقمطراز ہیں:
«ان القبر أول منازل الآخرة، وفيه أنموذج مايقع فى القيامة من العقاب والثواب، والمعاصي التى يعاقب عليها يوم القيمة نوعان: حق الله، وحق العبادة، أول ما يقضىٰ من حقوق الله: الصلاة، ومن حقوق الناس: الدماء، واما البرزخ فيقضيٰ فيه مقدمات هذين الحقين ووسائلهما، فمقدمة الصلاة: الطهارة من الحدث والخبث و مقدمة الدماء: النميته، فيبدا البرزخ بالعقاب عليهما» [ضياء الساري: ج 3، ص 505]
”یعنی قبر آخرت کی منزلوں میں پہلی منزل ہے۔ اسی میں مثال ہے قیامت کے عذات اور ثواب کا جو واقع ہو گا۔ معاصیت کے دو انجام ہیں قیامت کے روز پہلا حقوق اللہ، دوسرا حقوق العباد۔ حقوق اللہ میں نماز ہے اور حقوق العباد میں خون ہے۔ (جس کا سوال پہلے کیا جائے گا) اور برزخ میں ان دونوں کے بارے میں فیصلے کیے جائیں گے . پس جو نماز کا مقدمہ ہے وہ «طهارت من الحديث» اور «خبث» (سے شروع ہو گا) اور جو خون کا مقدمہ ہے وہ غیبت سے (شروع ہو گا) پھر ان دونوں پر برزخ میں عذاب کی ابتدا ہو گی۔“
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 128
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 31
´پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”یہ دونوں قبر والے عذاب دئیے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں دیے جا رہے ہیں ۱؎، رہا یہ شخص تو اپنے پیشاب کی چھینٹ سے نہیں بچتا تھا، اور رہا یہ (دوسرا) شخص تو یہ چغل خوری کیا کرتا تھا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی، اور اسے چیر کر دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک کی قبر پر ایک ایک شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: ”امید ہے کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہو جائیں ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے“ ۲؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 31]
31۔ اردو حاشیہ:
➊ بعض لوگ «فِي كَبِيرٍ» ”بھاری کاموں کی وجہ سے“ کے معنی کرتے ہیں ”بڑے گناہ“ یعنی ان لوگوں کو عذاب تو ہو رہا تھا، لیکن ایسے گناہوں کی وجہ سے نہیں جو کہ بڑے اور خطرناک ہوں، بلکہ معمولی گناہوں کی وجہ سے عذاب ہو رہا تھا، حالانکہ ان الفاظ کا یہ مفہوم ہے ہی نہیں۔ صحیح اور درست مفہوم یہی ہے کہ یہ دونوں کام، یعنی ”پیشاب سے بے احتیاطی اور چغل خوری“ بڑے کبیرہ اور خطرناک گناہ ہیں۔ اس بات کی صراحت حدیث شریف میں موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الوضوء، حدیث 216]
ہاں الفاظ کا یہ مطلب ضرور ہے کہ یہ دونوں کام کوئی اتنے بھاری اور مشکل نہیں کہ عمل نہ ہو سکتا ہو اور ان سے بچا نہ جا سکتا ہو۔ ان کاموں سے بچنا کوئی بڑی مشکل بات نہیں تھی۔ حقیقتاً یہ دونوں کام کبیرہ گناہ ہیں۔
➋ چھڑی یا شاخ کا رکھنا دراصل فعلی شفاعت تھی کہ یا اللہ! اتنی دیر تک ان سے عذاب میں تخفیف ہو جائے۔ چھڑی رکھنا صرف مدت کے تعین کے لیے تھا جیسا کہ صریح الفاظ ہیں۔ ورنہ چھڑی کا تخفیف عذاب سے کوئی تعلق نہیں کہ اسے سنت سمجھ کر اب بھی ایسا کیا جائے، البتہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے چھڑی رکھنے کی وصیت مذکور ہے۔ [صحیح البخاري، الجنائز، قبل الحدیث: 1361]
اس کے پیش نظر بعض کی رائے یہ ہے کہ چھڑی رکھنا تو جائز ہے، مگر اس کا تخفیف عذاب سے کوئی تعلق نہیں۔ مؤخر الذکر بات تو ٹھیک ہے لیکن حق یہ ہے کہ یہ صحابی کا اجتہاد ہے کیونکہ تخفیف عذاب میں نری چھڑی کا کوئی کمال نہیں تھا، اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی برکت اور اللہ تعالیٰ سے قربت کی بنا پر آپ کو تخفیف عذاب کی امید تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ آپ کا معجزہ تھا، کسی اور شخص کے لیے حالات قبور کا کشف و ظہور ناممکن ہے۔ جب قبر کی کیفیت کا پتہ ہی نہیں تو چھڑی گاڑنے کے کیا معنی؟ ہاں! بطور نشانی کوئی پتھر یا چھڑی وغیرہ ضرورت کے پیش نظرعا رضی طور پرنصب کی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 31
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2070
´قبر پر کھجور کی ٹہنی رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ یا مدینہ کے باغات میں سے ایک باغ کے پاس سے گزرے، تو آپ نے دو انسانوں کی آوازیں سنیں جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور انہیں کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے ۱؎، بلکہ ان میں سے ایک اچھی طرح اپنے پیشاب سے پاکی نہیں حاصل کرتا تھا، اور دوسرا چغل خوری ۲؎ کرتا تھا“، پھر آپ نے ایک ٹہنی منگوائی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2070]
اردو حاشہ:
(1) ”وہ بڑی ہی ہے۔“ مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے یہ کوئی مشکل اور بھاری کام نہ تھا، جبکہ حقیقتاً تھا وہ کبیرہ گناہ ہی۔
(2) ”پیشاب سے نہ بچتا۔“ یعنی وہ شخص چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔
(3) ”چغلیاں“ باہمی لڑائی اور فساد ڈالنے کے لیے ادھر کی بات ادھر اور ادھر کی ادھر پہنچانا، چاہے وہ سچ ہی ہو۔ یہ بھی گناہ کبیرہ ہے کیونکہ فساد سے بری کوئی چیز نہیں۔ دروغ مصلحت آمیز بہ، از راستیٔ فتنہ انگیز۔ ”جس سچ سے فساد بڑھے اس سے وہ مصلحت آمیز جھوٹ، جس سے فساد مٹے، بہتر ہے۔“
(4) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان قبروں پر چھڑیاں رکھنا آپ کی فعلی شفاعت ہے کہ یا اللہ! ان کے خشک ہونے تک ان سے عذاب رک جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی چھڑیاں رکھنا شروع کر دیں۔ اگر اس طرح چھڑیاں رکھنے سے عذاب رک جاتا ہو تو پھر تو لوگ قبر پر درخت ہی لگا دیا کریں، وہ خشک ہو نہ عذاب شروع ہو۔ یہ تو سب سے آسان طریقہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فعل وحی کی بنیاد پر متعین وقت کے لیے کیا تھا، ورنہ چھڑی کا عذاب کی تخفیف سے کوئی تعلق نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس واقعے کے علاوہ کبھی کسی قبر پر چھڑی نہیں رکھی۔ یہ آپ کا خاصہ تھا، سنت نہیں۔ اس حدیث سے بزرگوں کی قبروں پر پھول چڑھانے کے لیے استدلال کرنا عجیب ہے۔ اس استدلال کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ان کا عمل یہ واضح کر رہا ہے کہ ان کے بزرگوں کو یا قبروں میں مدفون لوگوں کو عذاب ہو رہا ہے۔ ورنہ قبروں پر گل پاشی وغیرہ کرنے کا کیا جواز ہے؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2070
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:216
216. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ مدینے یا مکے کے کسی باغ سے گزرے تو وہاں دو آدمیوں کی آواز سنی جن کو قبر میں عذاب ہو رہا تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ” ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے لیکن یہ عذاب کسی بڑی بات پر نہیں دیا جا رہا۔“ پھر فرمایا: ” ہاں (بڑی ہی ہے) ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کی عادت میں مبتلا تھا۔“ پھر آپ نے ایک تر شاخ منگوائی، اس کے دو ٹکڑے کر کے ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ آپ سے عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: ” امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہو جائیں، ان دونوں پر عذاب ہلکا کر دیا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:216]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ عنوان قائم کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ پیشاب ناقض وضو ہونے کے ساتھ ساتھ ناپاک اور نجس بھی ہے، لہٰذا بدن اور کپڑوں کی حفاظت ضروری ہے اور اس سے پرہیز نہ کرنا ایک کبیرہ گناہ ہے جو قبر اورآخرت میں عذاب کا باعث ہوسکتا ہے، خواہ یہ اصل کے اعتبار سے کبیرہ ہو، یا اصرار اورعادی ہونے کی وجہ سے کبیرہ بن گیا ہو۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ دیوار کی جڑ میں نرم جگہ پر پیشاب کیا اور فرمایا:
”جب تم میں سے کسی کو پیشاب کی حاجت ہو تو اس کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کرے۔
“ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 3)
اس سے احتیاط کے درج ذیل طریقے ہیں: 1۔
کسی بندش یا روک والی جگہ کا انتخاب کیاجائے، کیونکہ کھلی جگہ پر ہوا پیشاب کا رخ پلٹ سکتی ہے۔
2۔
جہاں پیشاب کرنے کے لیے بیٹھے ادھر ہوا کا رخ نہ ہو کیونکہ بعض دفعہ آگے سے ہوا پڑنے کی بنا پر کپڑے یا بدن آلودہ ہوسکتا ہے۔
3۔
پیشاب گرنے کی جگہ نرم ہو تاکہ پیشاب جذب ہوجائے، کیونکہ سخت جگہ پر پیشاب کرنے سے اس کے چھینٹے بدن اور کپڑوں کو ناپاک کرسکتے ہیں۔
4۔
پیشاب کرتے وقت ڈھلوان کا رخ اگلی جانب ہو کیونکہ پچھلی جانب رخ ہونے سے بدن کے ناپاک ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
2۔
اس حدیث میں یہ اشکال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو ان کے کبیرہ ہونے کی نفی فرمائی، پھر اس کے کبیرہ ہونے کا اثبات فرمایا۔
شارحین نے اس سلسلے میں متعدد تاویلات کی ہیں:
(الف)
۔
یہ دونوں باتیں فی نفسہ کبیرہ نہ تھیں مگر ان کے عادی اور خوگر ہوجانے نے ان کو کبیرہ بنادیا۔
حدیث کے الفاظ بھی اس کی تائید کرتے ہیں، کیونکہ (كَانَ)
جب مضارع پر داخل ہوتا ہے تو استمرار اور دوام کا فائدہ یتا ہے۔
1۔
ان گناہوں سے احتراز کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی اور نہ ان سے پرہیز کرنے میں انھیں کسی دقت ہی کاسامنا کرنا پڑتا تھا، اس کے باجود ان سے احتراز نہ کیا گیا۔
اس وجہ سے ان میں سنگینی پیدا ہوگئی۔
2۔
لوگوں کی نگاہوں میں یہ معمولی گناہ تھے، اس لیے وہ ان سے بچنے کا اہتمام نہ کرتے تھے، مگر اللہ کےنزدیک یہ بہت بڑے جرم تھے، جیسا کہ واقعہ افک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ﴾ ” تم اسے معمولی بات سمجھتے ہو مگر وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات تھی۔
“ (النور: 15: 24)
3۔
جس كبيره کی نفی کی گئی ہے وہ اکبر کے معنی میں ہے، یعنی بڑاگناہ تو ہے مگر قتل عمد کی طرح بہت بڑا نہیں۔
اس طرح نفی واثبات دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔
4۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں پہلے صغیرہ ہی خیال کیا تھا، لیکن اس کے بعد وحی نازل ہوئی کہ یہ چیزیں صغیرہ نہیں بلکہ کبیرہ ہیں۔
اس لیے آپ نے فوراً استدراک فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ لوگ کبیرہ گناہ کے مرتکب تھے۔
5۔
ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ ہر جرم کی دوصورتیں ہوتی ہیں۔
حسی اور شرعی۔
یعنی یہ جرم وجود حسی کے اعتبارسے معمولی نظر آتے تھے مگر شرعی اعتبار سے انتہائی سنگین تھے، کیونکہ کپڑا یا بدن ناپاک ہوتو نماز صحیح نہیں ہوتی، نیز لگائی بجھائی کرنے سے خاندان تباہ ہوجاتے ہیں۔
یعنی شریعت کی نظر میں یہ چیزیں معمولی نہ تھیں جس میں یہ لوگ زندگی بھر مبتلا رہے اور اب انھیں اس پاداش میں عذاب دیاجارہا ہے۔
3۔
کبیرہ، وہ گناہ ہوتا ہے جو دوسرے گناہوں کے لحاظ سے زیادہ قبیح اور شارع کی نظر میں بڑے درجے کی برائی رکھتا ہو اور جس کے ارتکاب پر شریعت میں لعنت،غضب،عذاب کی وعید آئی ہو یا دنیا میں اس کے ارتکاب پر حد لگائی جاسکتی ہو۔
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ گناہ کا چھوٹابڑا ہونا ایک نسبی امر ہے، لہذا ہر ایسا گناہ جس سے اوپر درجے کا گناہ بھی ہے، وہ اوپر والے کی نسبت سے صغیرہ ہے اور اپنے ماتحت کے اعتبار سے وہی کبیرہ بھی ہے۔
(عمدةالقاري: 592/2)
اصل بات یہ ہے کہ جس کبیرہ گناہ پر بھی صحیح معنوں میں اللہ کی طرف رجوع ہوجائے وہ صغیرہ جیسا بن جاتا ہے اور جس صغیرہ پر اصرار ومداومت ہو اور اسے صغیرہ خیال کیا جائے،وہ کبیرہ جیسا بن جاتا ہے،جیسے اگر معمولی چنگاری کو پانی سے نہ بجھایا جائے تو بڑے بڑے محلات کو زمین بوس کردیتی ہے اور اگربڑے بڑے شعلوں کو پانی سے سرد کردیا جائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
واللہ أعلم۔
4۔
یہ حدیث نص صریح ہے کہ عذاب قبر برحق ہے اور عذاب بھی اسی زمینی قبر میں ہوتا ہے اور جن لوگوں کو زمینی قبر نہیں ملتی ہے ان کے لیے وہی قبر ہے جہاں ان کے ذرات پڑے ہیں۔
قرآن وحدیث میں اس کے لیے کسی برزخی قبر کا وجود ثابت نہیں ہے، جیساکہ بعض فتنہ پرورلوگوں کا خیال ہے۔
اصلاحی صاحب نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ عذاب قبر کا انکار کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
” قبر میں عذاب ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
اس عذاب کا قرآن مجید میں کوئی ذ کر نہیں ہے، اس لیے کہ عالم برزخ میں حساب کتاب نہیں ہوتا۔
“ (تدبرحدیث: 309/1)
درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ سے ان کا رد ہوتا ہے:
﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ ” فرعون اورآل فرعون کو صبح وشام آگ سے سامنے لایاجاتاہے اور جس دن قیامت ہوگی(فرمان ہوگا کہ)
فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔
“ (المؤمن: 46: 40)
اس آیت کریمہ سے واضح طور پرعذاب قبر کا اثبات ہوتا ہے، نیز رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جواب میں فرمایا:
”ہاں!قبر کا عذاب حق ہے۔
“ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1372)
لیکن منکرین، قرآن اور حدیث کی تصریحات کا انکارکرتے ہیں۔
امید ہے کہ احادیث پر تدبر کرنے والوں کو اب عذاب قبر کا ضرور احساس ہو رہا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
5۔
اس حدیث کے پیش نظر قبروں پر سبزہ لگانا اور ان پر پھول چڑھانا جائز قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا۔
اگرسبزہ لگانا میت کے حق میں تخفیف عذاب کا باعث ہوتا توصراحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ اسکی ترغیب دیتے۔
آپ نے مردوں کے متعلق ایصال ثواب اور نفع رسانی کے مختلف طریقے بیان فرمائے ہیں لیکن ان میں پھول چڑھانے یا سبزہ لگانے کا عمل کہیں بیان نہیں فرمایا، حالانکہ یہ ایک عام دستیاب سستا اور بے ضرر نسخہ ہے۔
جس سے ہر وقت زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا مگرآپ نے اسے جاری رکھنے کا حکم نہیں دیا۔
یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازوں کے مفصل حالات سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہیں، کسی نے بھی اس کی ترغیب نہیں دی۔
صرف حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے عامل ہوئے ہیں۔
انھوں نے اپنے بیٹے کو قبر پرشاخ رکھنے کی تلقین فرمائی تھی اور بس! دوسرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے مقابلے میں ایک صحابی کے عمل کو سنت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 216
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:218
218. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ کا گزر دو قبروں سے ہوا، آپ نے فرمایا:” ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑی بات کے سلسلے میں نہیں ہے۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا۔“ پھر آپ نے ایک تازہ شاخ لی اور درمیان سے چیر کر اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اور ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ارشاد ہوا: ” جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں، شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہو جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:218]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ باب بلاعنوان ہے۔
عام طورپر ایسے ابواب کی تین اغراض ہوتی ہیں:
(1)
۔
اس کا تعلق پہلے باب سے ہوتاہے گویا یہ اس کا تکملہ اور تتمہ ہے۔
(2)
۔
قارئین کی ذہنی استعداد بڑھانا مقصود ہوتا ہے کہ وہ حدیث پر غورو فکر کرکے خود کوئی عنوان قائم کریں۔
(3)
۔
بعض اوقات یہ بھی اشارہ ہوتا ہے کہ باب بلاعنوان کے تحت آنے والی حدیث سے متعدد مسائل ثابت ہوتے ہیں، اس لیے اس پر کوئی ایک عنوان قائم کرکے اسے محدود نہیں کیاجاتا۔
اس مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کیا غرض ہے اس کے متعلق شارحین نے مختلف وجوہات لکھیں ہیں:
(الف)
۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری کے تراجم ابواب میں لکھا ہے کہ باب کا لفظ صرف ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے میں ہے، بخاری کے دوسرے نسخوں میں یہاں لفظ باب نہیں ہے۔
لہذااس کا حذف ہی بہتر ہے۔
(ب)
۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ باب سابق باب کی فصل ہے، لیکن اس موقف سے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سابق باب کی فصل قراردینے کے لیے دوچیزوں کا ہوناضروری ہے۔
1۔
ان دونوں میں کسی اعتبار سے اتحادہو۔
2۔
دوسری جہت سے ان میں مغایرت کا پہلو بھی نماہاں ہو۔
اگر اسے باب سابق ” غسل البول“ کی فصل تسلیم کریں تو کلی طور پر مغایرت ہے، کسی اعتبار سے بھی ان میں اتحاد نہیں۔
اگر اس سے پہلے باب کی فصل تسلیم کریں تواس میں کلی اتحاد ہے کیونکہ وہاں بھی اس حدیث کو بیان کیاگیا ہے۔
اسے دوبارہ یہاں پربیان کرنا چہ معنی دارد۔
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس باب بلاعنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اختلاف سند دکھانا ہے، گزشتہ روایت مجاہد عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھی اور مذکورہ روایت مجاہد عن طاؤس عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، یعنی یہ روایت بواسطہ طاؤس ہے جبکہ پہلی براہ راست تھی۔
امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں طریق کی صحت تسلیم کی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث مذکور کو بواسطہ طاؤس اور براہ راست دونوں طرح سنا ہے۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بواسطہ طاؤس والی روایت کو اصح کہا ہے۔
(عمدة القاري: 604/2)
ہمارے نزدیک اس باب بلاعنوان کی غرض قارئین کی ذہنی استعداد بڑھانا ہے کہ وہ خود اس کے سیاق وسباق کا لحاظ کرکے کوئی موزوں عنوان قائم کریں، چنانچہ یہاں مندرجہ ذیل عنوان مناسب ہے:
(البول موجبا لعذاب القبر)
پہلے باب میں اس کا کبیرہ گناہ ہوناثابت کیاتھااور یہاں تنبیہ فرمائی کہ عذاب قبر بھی کبیرہ گناہ کے باعث ہوتا ہے۔
2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ مستقل باب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس لیے قائم کیا ہے کہ غسل بول پر واضح دلالت ہوجائے۔
اس میں شک نہیں کہ پیشاب کا دھونا واجب ہے، ہاں! ڈھیلے سے استنجا کرنے کی صورت میں رخصت ثابت ہے بشرطیکہ اپنے محل سے منتشر نہ ہو۔
اگرپیشاب اپنے محل سے منتشر ہواتوڈھیلے سے استنجا کرنے کے باوجود اس کا دھونا اس حدیث سے ثابت ہوگا، یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض محل سے منتشر شدہ بول کے وجوب غسل پر تنبیہ ہے۔
(فتح الباری: 420/1)
3۔
ابن بطال نے لکھاہے کہ لایستتر کے معنی یہ ہیں:
اپنے جسم اور کپڑوں کوپیشاب سے نہیں بچاتاتھا، پھر جب اس کے دھونے سے بے پروائی اور اسے معمولی خیال کرنے کی وجہ سے عذاب کی وعید ہے تو معلوم ہوا کہ جو شخص پیشاب کو اس کے مخرج میں چھوڑ دے گا اسے نہ دھوئے گا وہ بھی مستحق عذاب ہوگا۔
صحیح بخاری کےعلاوہ دوسری روایت میں (لَايَستَبرِئُ)
کے الفاظ ہیں، یعنی پیشاب کے بعد کوئی قطرہ آنے والاہوتو اسے نکال دینے کی کوشش نہیں کرتا تھا، اس لیےضروری ہے کہ استنجا کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پیشاب کی نالی میں کوئی قطرہ باقی نہ رہے۔
اگر اس میں بے پروائی کی اور وضو کے بعد پیشاب کا قطرہ،برآمد ہواتو وضو ساقط ہوکر نماز بھی صحیح نہ ہوگی۔
(شرح ابن بطال: 325/2)
آج کل چونکہ مثانے کی کمزوری کے متعلق عام شکایت ہے، اس لیے استنجا کرتے وقت تحریک ونثر(جھاڑنے)
کے ذریعے سے پیشاب گاہ کو بالکل خالی کرلینا چاہیے۔
4۔
اس حدیث سے معلوم ہواکہ عذاب قبر کا پیشاب سے پرہیز نہ کرنے اورچغلی کرنے سے گہرا تعلق ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کے درمیان مناسبت کی توضیح کی ہے کہ برزخ مقدمہ آخرت ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے حقوق اللہ میں سے نماز کا فیصلہ کیا جائے گا او رنماز بھی وہ قبول ہوگی جو حدث وخبث سے طہارت پر مبنی ہوگی اور حقو ق العباد میں سے قتل وخون کے فیصلے سب سے پہلے ہوں گے اور قتل وخون کابڑا سرچشمہ غیبت اور چغل خوری ہے۔
جب ایک کی بات دوسرے تک فساد وشرانگیزی کی نیت سے پہنچائی جائے گی تو اس سے جذبات مشتعل ہوں گے اور قتل وخون ناحق تک نوبت پہنچ جائے گی۔
(فتح الباري: 579/10) (5)
۔
اصلاحی صاحب نے اس روایت کے متعلق بھی اپنے اندیشہ ہائے دور دراز کا اظہار کیا ہے اور ان کے پیش نظر اسے محل نظرقرار دیا ہے۔
اس روایت میں حضرت امام اعمش کا نام آیا ہے۔
ان کے متعلق امام تدبر کا تبصرہ سنیے۔
” اعمش کے متعلق رجال کے ماہرین کہتے ہیں کہ وہ شیعیت کے لیے متہم تھے۔
یہ بات ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح زہری روایات میں ملاوٹ کر دیتے ہیں اسی طریقے سے اعمش نے یہاں یہ کیا ہے۔
(تدبر حدیث: 310/1)
رجال کے ماہرین میں سے یحییٰ القطان کانام سرفہرست ہے۔
امام اعمش کے متعلق یحییٰ القطان فرماتے ہیں کہ یہ نہایت عبادت گزار اور اسلام کی ایک علامت تھے۔
حضرت ابوبکر بن عیاش انھیں سید المحدثین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔
(تهذیب الکمال في أسماء الرجال: 113/114/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 218
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1361
1361. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ دو قبروں کے پاس سے گزرے جن (میں مدفون مردوں) کو عذاب دیاجارہا تھا۔آپ نے فرمایا:”ان دونوں کوعذاب دیاجارہا ہے۔ لیکن یہ عذاب کسی مشکل بات کیوجہ سے نہیں۔ ان میں سے ایک پیشاب سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا تھا۔“ اس کے بعد آپ نے کھجور کی تازہ شاخ لی اور اسے چیر کر دو حصے کردیے، پھر ہر ایک قبر پر ایک ایک گاڑ دی۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ!آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟آپ نے فرمایا:”امید ہے کہ جب تک یہ دونوں ٹکڑے خشک نہ ہوں گے ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1361]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبر پر کھجور کی تازہ شاخ رکھنا مسنون عمل ہے، کیونکہ ایسا کرنا صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا، دوسروں کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں، کیونکہ قبر پر پھول یا تازہ شاخ رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
(2)
واضح رہے کہ اہل قبر کو عذاب میں تخفیف رسول اللہ ﷺ کی دعا اور سفارش کی بنا پر تھی، اس میں شاخوں کی تازگی کو کوئی دخل نہیں جیسا کہ حضرت جابر ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”میں دو قبروں کے پاس سے گزرا، مجھے معلوم ہوا کہ اس میں مدفون مردوں کو عذاب ہو رہا ہے، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میری سفارش سے جب تک یہ ٹہنیاں تازہ رہیں ان سے عذاب کو دور کر دیا جائے۔
“ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7518(3012)
یہ حدیث اس بات پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ ان سے عذاب کا دور ہونا رسول اللہ ﷺ کی دعا اور سفارش کی وجہ سے تھا، اس میں کھجور کی شاخ اور اس کی تازگی کو کوئی دخل نہیں۔
اگر ان کی تازگی تخفیف کا سبب ہو تو جو لوگ گھنے باغات میں مدفون ہیں، انہیں سرے سے عذاب ہی نہیں ہونا چاہیے، حالانکہ یہ مفروضہ عقلا نقلا صحیح نہیں۔
پھر اگر اس کی تازگی ہی تخفیف عذاب کا باعث تھی تو کھجور کی شاخ کو چیر کر دو حصے کرنے کی ضرورت نہ تھی، بلکہ اسے توڑ کر دو حصے کر لیے جاتے تاکہ دیر تک عذاب میں تخفیف رہتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، تو اس کا واضح مطلب ہے کہ تخفیف عذاب صرف آپ کی دعا اور سفارش کی وجہ سے تھی۔
اگر شاخوں کی تازگی تخفیف عذاب کا باعث ہوتی تو دیگر اہل قبور کے ساتھ بھی یہ معاملہ کیا جاتا اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام ؓ بکثرت اس پر عمل پیرا ہوتے۔
اگر ایسا ہوتا تو نقل تواتر سے یہ عمل ہم تک پہنچتا۔
جب ایسا ثابت نہیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ سرے سے یہ عمل ہی غیر مشروع ہے۔
حضرت بریدہ اسلمی ؓ کی وصیت کے متعلق ہم اپنی گزارشات پہلے بیان کر آئے ہیں۔
علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں کہ اکاس بیل یا دوسرے پھول وغیرہ قبروں پر رکھنا جائز نہیں، کیونکہ ایسا کرنا اسلاف سے ثابت نہیں۔
اگر یہ کام بہتر ہوتا تو وہ ہم سے سبقت لے جاتے۔
(أحکام الجنائز، ص: 258، مسئلة: 124)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1361
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1378
1378. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہواتو آپ نے فرمایا:”ان دونوں کو عذاب ہورہاہے اور کسی بڑے گناہ کی پاداش میں انھیں سزا نہیں دی جارہی۔“ پھر فرمایا:”کیوں نہیں!ایک ان میں سے چغلی کھاتا پھرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب (کے چھینٹوں) سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔“ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: پھر آپ نے (کھجور کی) ایک تازہ شاخ لی اور اسکے دو ٹکڑے کیے، پھر ہر ایک کو قبر پر گاڑ کر فرمایا:”جب تک یہ خشک نہ ہوں گے امید ہے کہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1378]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ اس حدیث میں غیبت کا ذکر نہیں، لیکن غیبت اور چغلی قریب قریب ایک ہی قسم کے گناہ ہیں، اس لیے دونوں عذاب قبر کے اسباب میں سے ہیں، تاہم اس حدیث کے بعض طرق میں لفظ غیبت آیا بھی ہے۔
(2)
حافظ ابن حجرؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس عنوان میں صرف دو چیزوں کا ذکر ان کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے، ان کے علاوہ دوسرے گناہوں کی نفی نہیں ہے، یعنی ان کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ عذاب قبر صرف ان دو گناہوں پر منحصر ہے۔
اس مقام پر صرف ان کا ذکر کرنا، اس لیے ہے کہ ان کے ارتکاب پر عذاب قبر کا ہونا زیادہ ممکن ہے کیونکہ یہ دونوں کام عوامی نوعیت کے ہیں۔
کتب حدیث میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ پیشاب سے پرہیز کیا کرو، کیونکہ عام طور پر عذاب قبر اس سے بدپرہیزی کی بنا پر ہوتا ہے۔
(سنن دارقطني: 127/1، و فتح الباري: 308/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1378
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6052
6052. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس گزرے تو فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب دیا جارہا ہے اور (بظاہر) یہ کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب میں گرفتار نہیں ہیں بلکہ ایک اپنے پیشاب سے اجتناب نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا پھر آپ نے کھجور کی ایک تازہ شاخ منگوائی اور اسے چیر کردو ٹکڑے کر دیے اور ایک قبر پر ایک شاخ اور دوسری قبر پر دوسری شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6052]
حدیث حاشیہ:
(1)
احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کی تعریف مذکور ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کیا تمھیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟“ صحابۂ کرام نے کہا:
اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔
آپ نے فرمایا:
”تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو۔
“ پوچھا گیا:
اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہے جو میں کہہ رہا ہوں تو پھر؟ آپ نے فرمایا:
”اگر اس میں وہ بات پائی جائے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اس میں وہ بات موجود نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔
“ (صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: 6593(2589) (2)
یہ تو واضح بات ہے کہ بہتان غیبت سے بھی بڑا جرم ہے اور غیبت، خواہ زندہ انسان کی اس کی عدم موجودگی میں کی جائے یا کسی فوت شدہ انسان کی، جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں۔
غیبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مردے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے کیونکہ غیبت کرنے والا اس کی غیرت پر حملہ آور ہوتا ہے جیسے اسے کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہو اور مردہ اس لیے فرمایا کہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجود نہیں ہوتا۔
(3)
اس حدیث میں بھی غیبت کی قباحت اور خرابی کو بیان کیا ہے اگرچہ عنوان میں غیبت کا ذکر ہے اور حدیث میں نمیمہ کا بیان ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
ان دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ ناپسندیدہ بات عدم موجودگی میں کی جاتی ہے، اگرچہ بعض روایات میں غیبت کے الفاظ بھی مروی ہیں۔
(فتح الباري: 577/10)
ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے۔
میں نے پوچھا:
”اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟“ انھوں نے بتایا یہ وہ ہیں جو دوسروں کا گوشت کھاتے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے۔
“ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4878) (4)
واضح رہے کہ اس حدیث میں بڑے گناہ سے مراد وہ جرائم ہیں جن کے ارتکاب پر حد مقرر ہے، جیسے:
زنا اور چوری وغیرہ بصورت دیگر غیبت کرنا کوئی چھوٹا کام نہیں، البتہ اس پر کوئی شرعی حد لاگو نہیں ہوتی۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6052
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6055
6055. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے کسی باغ تشریف لائے تو آپ نے دو انسانوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان کو عذاب دیا جا رہا ہے لیکن کسی بڑی بات (جس سے بچنا مشکل ہو) کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا حالانکہ یہ کبیرہ گناہ ہیں ان میں سے ایک پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا۔“ پھر آپ نے کھجور کی ایک تازہ شاخ منگوائی اور اس کے دو ٹکڑے کیے۔ ایک ٹکڑا ایک قبر پر اور دوسرا دوسری قبر پر گاڑ دیا پھر فرمایا: ”ممکن ہے ان کے عذاب میں اس وقت تک تخفیف کر دی جائے جب تک یہ خشک نہ ہو جائیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6055]
حدیث حاشیہ:
(1)
پیشاب سے پرہیز نہ کرنا اور چغلی کرتے پھرنا بہت بڑا گناہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کبیرہ گناہ ہے لیکن ان سے پرہیز کرنا اتنا مشکل نہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”انھیں کسی بڑی بات کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔
“ (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن حبان کے حوالے سے ایک روایت کے الفاظ بیان کیے ہیں کہ ان میں سے ایک اپنی زبان سے لوگوں کو تکلیف دیتا تھا اور چغلی کرتا پھرتا تھا۔
(صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان: 106/3، رقم: 824)
انھوں نے مزید لکھا ہے کہ عالم برزخ۔
آخرت کے لیے ایک پیش خیمہ ہے۔
قیامت کے دن حقوق العباد میں سب سے پہلےفیصلہ خون ناحق کا ہوگا اور اس کی بنیاد بعض اوقات چغلی اور غیبت ہوتی ہے اورحقوق اللہ میں سب سے پہلے فیصلہ نماز کے متعلق ہوگا اور نماز کی بنیاد ہر قسم کی نجاستوں سے پاک ہونا ہے۔
ان میں فہرست پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز کرنا ہے۔
(فتح الباري: 579/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6055