´قبر پر ٹہنی لگانا `
«. . . ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا، قَالَ: لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا أَوْ إِلَى أَنْ يَيْبَسَا".، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِب الْقَبْرِ: كَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ سِوَى بَوْلِ النَّاسِ . . .»
”. . . پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھجور کی) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے (ایک ایک ٹکڑا) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 216]
�
فوائد و مسائل: اس حدیث کے شواہد کے لئے دیکھئے:
[مصنف ابن ابی شیبہ 3 / 376، ح 12041] وغیرہ
اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ طبقات ابن سعد
[8/7] میں صحیح سند کے ساتھ ثقه عابد مورق العجلی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا بریدہ الاسلمی رضی اللہ عنہ نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں لگائی جائیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو بطور تعلیق کتاب الجنائز میں ذکر دیا ہے۔
[قبل ح 1361] درج بالا صحیح حدیث اور جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کے عمل کے خلاف معترض نے کوئی آیت پیش نہیں کی بلکہ یہ بے بنیاد دعویٰ کر دیا ہے کہ
”حالانکہ یہ مذہب شیعہ کی خاص مذہبی علامت ہے۔“ [۔۔۔ محدث ص46]
حالانکہ مذہب شیعہ و روافض کی پیدائش سے بہت پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قبروں پر دو ٹہنیاں لگائی یا لگوائی ہیں۔ اسے ٹہنی گاڑنا بھی کہتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قبر میں میت کے ساتھ ٹہنیاں بھی لٹا کر رکھی جائیں۔
طبقات ابن سعد کے ثقہ راویوں اور صحیح بخاری کی معلق روایت کے بارے میں معترض نے اپنے خواب و خیال کی بنیاد پر بڑ مارتے ہوئے جو عبارت لکھی ہے، وہ ان کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔