الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4509
حضرت عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجیوں کی گری پڑی چیز اٹھانے سے منع فرمایا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4509]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حاجیوں کی گری پڑی چیز نہیں اٹھانی چاہیے،
تاکہ وہ خود اٹھا سکیں،
کیونکہ عام طور پر حاجی وہ اشیاء ساتھ لے جاتے ہیں جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے،
اس لیے ان کو اپنی گمشدہ چیز کا جلد ہی احساس ہو جاتا ہے اور آج کل تو حرم میں اس کے لیے ایک محکمہ بنا دیا گیا ہے جس کے پاس گمشدہ چیز جمع کرائی جا سکتی ہے اور لوگ اس کی طرف مراجعت بھی کرتے ہیں،
لیکن اگر ایسی جگہ ملے،
جہاں اگر نہ اٹھائی جائے تو اس کے ضائع ہونے کا احتمال ہوتا ہے تو پھر اس کی تشہیر کی نیت سے اٹھا لینا چاہیے،
ملکیت کی نیت سے نہیں کہ معلوم نہیں اس کا مالک کس ملک کا ہو گا اور اب پھر کبھی حج کے لیے آ بھی سکے گا یا نہیں اور تشہیر کے بعد اس کا میرے پاس آنا ممکن ہو گا یا نہیں،
بلکہ تشہیر ہی کی نیت سے اٹھائے،
امام شافعی کی رائے کے مطابق تو اس کی تشہیر ہمیشہ کرنا ہو گی،
اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا،
امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے،
لیکن مشہور قول کی رو سے ان کے نزدیک،
حل اور حرم (مکہ،
غیر مکہ)
میں کوئی فرق نہیں ہے،
امام ابو حنیفہ اور امام مالک کا موقف یہی ہے،
حضرت ابن عمر،
حضرت ابن عباس،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے یہی منقول ہے،
تفصیل کے لیے دیکھئے،
(المغني ج 8،
ص 315-316)
بہرحال بہتر یہی ہے کہ اٹھا کر گمشدگی کا اعلان اور حفاظت کرنے والے محکمہ کے سپرد کر دے اور جہاز میں ملے تو فوراً تشہیر کر دے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4509