عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کی نکیل پکڑ کر چل رہا تھا، آپ نے فرمایا: ”عقبہ! کیا میں تمہیں دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں؟“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» سکھائیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان دونوں (کے سیکھنے) سے بہت زیادہ خوش ہوتے نہ پایا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے لیے (سواری سے) اترے تو لوگوں کو نماز پڑھائی اور یہی دونوں سورتیں پڑھیں، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”عقبہ! تم نے انہیں کیا سمجھا ہے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1462]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف:9946)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 46 (814)، سنن الترمذی/فضائل القرآن 12 (2902)، قیام اللیل (1337)، ن الکبری/الاستعاذة (7848)، مسند احمد (4/144، 149، 151، 153)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 24 (3482) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: انہیں معمولی اور حقیر سمجھ رہے ہو، حالانکہ یہ بڑے کام کی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بلاؤں اور جادو سے نجات پانے کے لئے یہ سورتیں پڑھتے تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (848) أخرجه النسائي (5438 وسنده حسن)
ألا أعلمك خير سورتين قرئتا فعلمني قل أعوذ برب الفلق و قل أعوذ برب الناس قال فلم يرني سررت بهما جدا فلما نزل لصلاة الصبح صلى بهما صلاة الصبح للناس فلما فرغ رسول الله من الصلاة التفت إلي فقال يا عقبة كيف رأيت
ألا أعلمك خير سورتين قرئتا فعلمني قل أعوذ برب الفلق و قل أعوذ برب الناس فلم يرني سررت بهما جدا فلما نزل لصلاة الصبح صلى بهما صلاة الصبح للناس فلما فرغ رسول الله من الصلاة التفت إلي فقال يا عقبة كيف رأيت
ألا أعلمك سورتين من خير سورتين قرأ بهما الناس فأقرأني قل أعوذ برب الفلق و قل أعوذ برب الناس فأقيمت الصلاة فتقدم فقرأ بهما ثم مر بي فقال كيف رأيت يا عقبة بن عامر اقرأ بهما كلما نمت وقمت
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1462
1462. اردو حاشیہ: ➊ حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شاید یہ سمجھے کہ کوئی خاص لمبی سورتیں پڑھائی جایئں گی۔ مگر یہ مختصر تھیں اس لئے ابتداءً کوئی زیادہ خوش نہیں ہوئے۔ تو نبی کریمﷺ نے نماز فجر میں ان کی قراءت کرکے ان کی فضیلت واہمیت واضح فرما دی۔ نیز ثابت ہے کہ یہ سورتیں دافع سحر۔ حفظ وامان اور جامع تعوذات ہیں۔ ➋ اور بعض لوگ اب بھی ایسے ہیں۔ کہ وہ لمبے لمبے پر مشقت وظیفوں کے شائق رہتے ہیں۔ حالانکہ چاہیے کہ سنت صحیحہ سے ثابت شدہ سہل اور خفیف اذکار کو اپنا معمول بنایاجائے۔اس میں محنت کم اور اجر وفضیلت زیاد ہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1462
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5438
´معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کا بیان۔` عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چل رہا تھا، تو آپ نے فرمایا: ”عقبہ! کیا میں تمہیں دو بہترین سورتیں نہ بتاؤں جو مجھے پڑھائی گئی ہیں؟“ پھر آپ نے مجھے «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» سکھائی، لیکن آپ نے مجھے ان دونوں پر خوش ہوتے نہیں دیکھا، پھر جب آپ فجر کے لیے مسجد آتے تو انہیں دونوں سورتوں سے لوگوں کو فجر پڑھائی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5438]
اردو حاشہ: ”کیا خیال ہے؟“ یعنی اب تجھے ان سورتوں کی اہمیت محسوس ہوئی؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5438
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5439
´معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کا بیان۔` عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری (اونٹنی) کی نکیل ان گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں پکڑے آگے آگے چل رہا تھا تو اس وقت آپ نے فرمایا: ”عقبہ! کیا تم سوار نہیں ہو گے؟“ میں نے آپ کی بزرگی کا خیال کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر ہو جاؤں، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تم سوار نہیں ہو گے عقبہ؟“ تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں نافرمانی نہ ہو جائے، پھر آپ اترے اور میں تھوڑی دیر کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5439]
اردو حاشہ: ”تیری کیا رائے ہے؟“ یعنی ان دو سورتوں کی شان وعظمت کے بارے میں کہ ان کو صبح کی نماز میں پڑھا گیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5439
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5439
´معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کا بیان۔` عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری (اونٹنی) کی نکیل ان گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں پکڑے آگے آگے چل رہا تھا تو اس وقت آپ نے فرمایا: ”عقبہ! کیا تم سوار نہیں ہو گے؟“ میں نے آپ کی بزرگی کا خیال کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر ہو جاؤں، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تم سوار نہیں ہو گے عقبہ؟“ تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں نافرمانی نہ ہو جائے، پھر آپ اترے اور میں تھوڑی دیر کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5439]
اردو حاشہ: ”تیری کیا رائے ہے؟“ یعنی ان دو سورتوں کی شان وعظمت کے بارے میں کہ ان کو صبح کی نماز میں پڑھا گیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5439
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:874
874- سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گھاٹی سے نیچے اتر رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عقبہ! تم یہ پڑھو۔“ میں نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں کیا پڑھوں۔ پھر ہم الگ ہوگئے: میں نے دعا کی: اے اللہ! تو اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وہ چیز مجھے لوٹا دے۔ پھر ہماری ملاقات ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عقبہ! تم پڑھو“ میں نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں کیا پڑھوں؟ پھر ہم جدا ہوگئے میں نے عرض کی: اے اللہ! تو اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:874]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ معوذتین کی بہت فضیلت ہے۔ ان کی قرأت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ گیا اسے اور کیا چاہیے۔ سیدنا عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”کیا تم کو وہ آیتیں معلوم نہیں جو آج کی رات نازل ہوئیں اور جن کی مثال اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔ وہ آیتیں یہ ہیں: ﴿قل أعوذ برب الفلق﴾ اور ﴿قل أعوذ برب الناس﴾“[صحيح مسلم 814/ 264] معوذتین کی فضیلت میں کئی ایک احادیث مروی ہیں جو الجامح الکامل میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا یونس نے بروایت زہری سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے حدیث کا آخری حصہ اس طرح نقل کیا ہے لیکن امام مالک رحمہ اللہ نے بروایت زہری اس طرح نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تھے تب بھی معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے تھے، لیکن جب آپ سخت بیمار ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ سورتیں پڑھ کر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر پھونک کر اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیر دیا کرتی تھی جس سے میرا مقصد حصول برکت تھا۔ [تفسير المعوذتين]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 873
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1891
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمھیں معلوم ہے کہ آج رات جو آیات مجھ پر اتاری گئی ہیں، ان کے مثل کبھی نہیں دیکھی گئیں؟ ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1891]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یہ دونوں سورتیں اس لحاظ سے بے مثال ہیں کہ ان میں ابتدا سے انتہا تک یعنی اول سے آخر تک تعوذ ہے اللہ تعالیٰ سے ہر قسم کے شرور چاہے ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے، پناہ طلب کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان سورتوں میں شرور سے حفاظت کی بے پناہ تاثیر رکھی ہے، اس طرح یہ ہر قسم کے شرور سے محفوظ رہنے کے لیے ہیں حصن حصین (مضبوط قلعہ) ہیں اور دونوں اختصار کے باوجود اپنے مضمون میں انتہائی جامع اور کافی و شافی ہیں۔