مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1592
1592. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ لوگ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس روز کعبہ شریف کو غلاف پہنایاجاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کردیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اب جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1592]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس میں عاشوراء کے دن کعبہ پر پردہ ڈالنے کا ذکر ہے جس سے کعبہ شریف کی عظمت ثابت ہوئی جو باب کا مقصود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1592
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4504
4504. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: دور جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور نبی ﷺ بھی (ملتِ ابراہیم کی پیروی میں) اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بھی اس دن کے روزے کو برقرار رکھا بلکہ اپنے صحابہ کو اس دن روزہ رکھنے کا پابند کیا۔ پھر جب رمضان کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کی فرضیت ترک کر دی گئی، پھر جس کا دل چاہتا روزہ رکھتا اور جس کا جی نہ چاہتا روزہ نہ رکھتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4504]
حدیث حاشیہ:
یوم عاشوراء کے روزہ کی فضیلت اور استحباب اب بھی باقی ہے۔
پہلے اس کا وجوب تھا جو رمضان کے روزوں کی فرضیت سے منسوخ ہو گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4504
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1592
1592. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ لوگ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس روز کعبہ شریف کو غلاف پہنایاجاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کردیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اب جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1592]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بیت اللہ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے کہ عاشوراء کے دن اسے غلاف پہنایا جاتا تھا۔
(2)
کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے یمن کے حیری بادشاہ اسعد تبع نے بیت اللہ کو غلاف پہنایا تھا۔
ہر دور میں اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دور جاہلیت میں بھی بیت اللہ کی تعظیم کے پیش نظر اسے غلاف پہنایا جاتا تھا، نیز غلاف پہنانے کا اہتمام محرم کی دسویں تاریخ، یعنی عاشوراء کے دن کیا جاتا تھا۔
امام ابو جعفر باقر کے زمانے تک یہ روایت قائم رہی، اس کے بعد ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو غلاف پہنانے کا آغاز ہوا جو آج تک قائم ہے۔
حکومت سعودیہ نے ایک مستقل محکمہ غلاف کعبہ کے لیے قائم کیا ہے جو سارا سال اس کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔
اس پر لاکھوں ریال اخراجات اٹھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس حکومت کو تادیر قائم رکھے تاکہ بیت اللہ کی حرمت و عظمت کو برقرار رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہو۔
آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1592
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1893
1893. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے فرمایا: ”جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1893]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ دونوں احادیث رمضان کے روزوں کی فرضیت کے لیے واضح دلیل ہیں۔
ان میں صراحت ہے کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہو گئی۔
(عمدۃالقاري: 8/7) (2)
اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہمارے لیے عاشوراء کا روزہ سنت ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فرض تھا یا سنت؟ اس میں اختلاف ہے۔
روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشوراء کا روزہ واجب تھا، پھر رمضان کے روزوں سے منسوخ ہوا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس دن کا روزہ نہیں رکھتے تھے، البتہ جن ایام میں انہیں روزہ رکھنے کی عادت تھی اگر ان دنوں میں عاشوراء آ جاتا تو روزہ رکھ لیتے۔
اس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ روزہ متروک ہے لیکن ایسا نہیں کیونکہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے صاف ظاہر ہے کہ عاشوراء کا روزہ منسوخ ہو جانے کے بعد اس دن کا روزہ رکھنے کے متعلق اختیار دے دیا گیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
“ اس روایت سے عاشوراء کے روزے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
اس کی مزید وضاحت آئندہ آئے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1893
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2002
2002. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایاکہ جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ بھی نبوت سے پہلے اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو خود بھی روزہ رکھا اوردوسروں کوبھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیالیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا گیا۔ اب جو چاہے اس دن روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2002]
حدیث حاشیہ:
(1)
عاشوراء دسویں محرم کو کہتے ہیں۔
محرم الحرام کا مہینہ دین اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
اسے ان چار مہینوں میں شامل کیا گیا ہے جن کی عزت و توقیر کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
ادب و احترام والے چار مہینے حسب ذیل ہیں:
٭ ذوالقعدہ ٭ ذوالحجہ ٭ محرم ٭ رجب۔
ماہ محرم کی عزت اس لیے نہیں کہ اس میں سیدنا حضرت حسین ؓ کی شہادت ہوئی ہے بلکہ قرآنی تصریح کے مطابق زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت ہی سے یہ مہینہ حرمت والا ہے لیکن بعض لوگ محرم کا چاند نظر آتے ہی اس کا پہلا عشرہ واہی تباہی کی نذر کر دیتے ہیں اور اس مہینے کو صرف کربلا کی قصہ گوئی کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ماہ محرم کا تقدس شاید سانحہ کربلا کی وجہ سے ہے، حالانکہ اس کی حرمت و عظمت کسی واقعے یا سانحے کی مرہون منت نہیں ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا:
رمضان کے بعد کون سا روزہ افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ کے ماہ محرم کا۔
“ (مسندأحمد: 342/2)
اس سے معلوم ہوا کہ ماہ محرم کے روزے بہت فضیلت والے ہیں، لہذا اس میں کثرت سے روزے رکھے جائیں، البتہ عاشوراء کا روزہ ان میں سب سے زیادہ مؤکد ہے جسے ثابت کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے اور احادیث پیش کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے آپ نے یہ روزہ رکھنے کا حکم دیا، بعد ازاں حکم وجوب ختم کر دیا جسے حدیث میں ترک سے تعبیر کیا گیا ہے، تاہم اس کا استحباب برقرار رکھا گیا۔
(2)
عاشوراء کی تاریخی حیثیت بہت قدیم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور آپ کی قوم کو فرعون سے اسی عاشوراء کے دن نجات دی تھی تو بنی اسرائیل اس خوشی میں بطور شکرانہ روزہ رکھتے تھے جیسا کہ آئندہ بخاری کی حدیث میں بیان ہو گا۔
یہودی صرف روزہ ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ خوشی و مسرت کا اظہار بھی کرتے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اہل خیبر اس دن جشن مناتے اور اپنی عورتوں کو زیورات اور سامان زینت سے مزین کرتے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2661۔
2660(1131)
اس دن اظہار مسرت کے لیے عیسائی بھی یہودیوں کے ساتھ شریک ہوتے اور اس دن کی عظمت کا اظہار کرتے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اس دن کو یہودی اور عیسائی بڑا عظیم خیال کرتے تھے۔
(حوالہ نہیں لکھا ہوا)
ایام جاہلیت میں قریش بھی اس دن کو عظیم سمجھتے تھے اور اس عظمت کے پیش نظر کعبہ شریف کو غلاف پہناتے اور اس دن کا روزہ رکھتے تھے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا جو ان کے دل میں کانٹے کی حیثیت اختیار کر گیا، انہیں بتایا گیا کہ عاشوراء کی تعظیم اور اس دن کا روزہ رکھنے سے اس گناہ کی تلافی ہو سکتی ہے، (فتح الباري: 312/4)
چنانچہ حدیث عائشہ میں بیان ہوا ہے کہ قریش دور جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی بعثت سے قبل اس دن کا روزہ رکھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2002
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3831
3831. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ عاشوراء کے روز زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے۔ نبی ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام فرمایا۔ جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بھی عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو جو چاہتا عاشوراء کا روزہ رکھتا، جو چاہتا نہ رکھتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3831]
حدیث حاشیہ:
دور جاہلیت میں جنگل کا قانون ہونے کے باوجود کچھ اچھے کام بھی ہوتے تھے جنھیں اسلام نے نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ان کی تحسین فرمائی ہے انھی میں سے ایک عاشوراء کے دن کا روزہ ہے عاشوراء دسویں محرم کو کہتے ہیں دور جاہلیت میں اسے بڑے احترام سے دیکھا جاتا تھا۔
قریش اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔
کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں زبردست قحط پڑا جب وہ ختم ہوا تو انھیں کسی نے بتایا کہ تم شکر کے طور پر عاشوراء کا روزہ رکھو، چنانچہ انھوں نے اس دن کا روزہ رکھنا شروع کردیا جسے اسلام نے بھی برقرار رکھا۔
اس کی فضیلت اس قدر ہے کہ اس کے اہتمام سے ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
اسلام نے معمولی سی ترمیم کی ہے کہ عاشوراء کے ساتھ ایک دن پہلے یعنی نو تاریخ کا بھی روزہ رکھا جائے تاکہ مذہبی شعار میں اہل کتاب کی مخالفت ہو جائے۔
(فتح الباري: 188/7)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3831
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4504
4504. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: دور جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور نبی ﷺ بھی (ملتِ ابراہیم کی پیروی میں) اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بھی اس دن کے روزے کو برقرار رکھا بلکہ اپنے صحابہ کو اس دن روزہ رکھنے کا پابند کیا۔ پھر جب رمضان کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کی فرضیت ترک کر دی گئی، پھر جس کا دل چاہتا روزہ رکھتا اور جس کا جی نہ چاہتا روزہ نہ رکھتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4504]
حدیث حاشیہ:
1۔
عنوان اور مذکورہ احادیث میں مطابقت اس طرح ہے کہ ان تمام احادیث میں رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا ذکر ہے، نیز عاشوراء کا روزہ پہلے فرض تھا، اب اس کا استحباب باقی ہے۔
ایک روایت میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بیان ان الفاظ میں مروی ہے کہ ہم پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور جب رمضان کا حکم نازل ہوا تو ہمیں عاشوراء کے متعلق نہ حکم دیا گیا اور نہ اس سے منع کیا گیا، البتہ ہم اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
(فتح الباري: 224/8)
2۔
امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امتوں پر رمضان کے روزے فرض نہیں تھے، رمضان کے روزوں کی فرضیت صرف اس امت کے لیے ہے۔
اگررمضان کے روزے پہلی امتوں پر فرض ہوتے تو آپ عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنے کے بجائے رمضان کے روزے رکھتے۔
(فتح الباري: 224/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4504