197- علقمہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ حج کرنے کے لیے روانہ ہوئے، کچھ لوگوں نے یہ مسئلہ چھیڑ دیا: آیا روزہ دار شخص (اپنی بیوی کا) بوسہ لے سکتا ہے؟ حاضرین میں سے ایک صاحب بولے: جی ہاں! ایک دوسرے صاحب بولے: جو دو سال تک مسلسل نفلی روز رکھتے رہے تھے اور رات بھر نوافل ادا کرتے رہے تھے، میں نے یہ ارادہ کیا میں اپنی یہ کمان پکڑوں اور اس کے ذریعے تمہیں ماروں (روای کہتے ہیں) جب ہم مدینہ منورہ آئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے ان لوگوں نے کہا: اے ابوشبل! تم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کرو، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں کبھی بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے کوئی برائی کی بات نہیں کروں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے لوگوں کی گفتگو سن لی انہوں نے دریافت کیا: تم لوگ کس موضوع پر بات کررہے ہو؟ میں تمہاری ماں ہوں۔ لوگوں نے عرض کی: اے ام المؤمنین! روزہ دار شخص (اپنی بیوی کا) بوسہ لے سکتا ہے، تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی زوجہ محترمہ کا) بوسہ لے لیا کرتے تھے، ان کے ساتھ مباشرت کرلیتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ہوا ہوتا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خواہش پر سب سے زیادہ قابوحاصل تھا۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 197]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1927، ومسلم: 1106، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4428، 4718»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:197
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینا درست ہے، لیکن اگر شہوت پر کنٹرول ہو تو درست ہے لیکن جو شخص کنٹرول نہ کر سکے تو وہ روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ نہ لے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اوپر بہت زیادہ کنٹرول تھا، سبحان اللہ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا شرعی مسائل بیان کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتی تھیں، بعض لوگ عورت کی آواز کو بھی پردہ خیال کرتے ہیں، جو کہ غلط ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 197
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1294
´مصیبت و تکلیف کے وقت جزع فزع اور چیخ و پکار کرنا جائز نہیں` «. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورتیں (کسی کی موت پر) اپنے چہروں کو پیٹتی اور گریبان چاک کر لیتی ہیں اور جاہلیت کی باتیں بکتی ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہیں . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1294]
� لغوی توضیح: «الْخُدُوْدَ» جمع ہے «خَد» کی، معنی ہے رخسار۔ «الْجُيُوٌبَ» جمع ہے «جَيٌب» کی، معنی ہے گریبان۔
فہم الحدیث: معلوم ہوا کہ مصیبت و تکلیف کے وقت جزع فزع اور چیخ و پکار کرنا جائز نہیں اور جاہلیت کی پکار (یعنی ہلاکت و بربادی کی دعائیں، بین کرنا، نوحہ کرنا وغیرہ) بھی حرام ہے۔ قرآن میں ہدایت یافتہ انہیں کہا گیا ہے جو مصیبت کے وقت صبر کرتے ہیں اور زبان سے یہ الفاظ نکالتے ہیں: «إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ»[سورة البقرة: آيت 156]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 65
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1861
´جاہلیت کی چیخ پکار اور رونا دھونا منع ہے۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں ۱؎ جو منہ پیٹے، گریباں پھاڑے، اور جاہلیت کی پکار پکارے (یعنی نوحہ کرے)۔“ یہ الفاظ علی بن خشرم کے ہیں، اور حسن کی روایت «بدعا الجاہلیۃ» کی جگہ «بدعویٰ الجاہلیۃ» ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1861]
1861۔ اردو حاشیہ: ➊ ”ہم میں سے نہیں“ یعنی وہ ہمارے جاری کردہ طریقے پر نہیں بلکہ اس فعل میں کافروں جیسا ہے، نہ کہ وہ کافر ہو جاتا ہے۔ ➋ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو رضامندی سے تسلیم کرنا چاہیے۔ آہ و بکاناشکری کے زمرے میں آتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1861
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1584
´(مصیبت کے وقت) منہ پیٹنا اور گریبان پھاڑنا منع ہے۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (نوحہ میں) گریبان پھاڑے، منہ پیٹے، اور جاہلیت کی پکار پکارے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1584]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) دل کا غم اور آنکھوں سے آنسووں کا بہنا صبر کے منافی نہیں۔ البتہ اس کے علاوہ لوگ بے صبری کی وجہ سے جو مختلف قسم کی نامناسب حرکات کرتے ہیں۔ وہ شرعاً ممنوع ہیں۔ 2۔
(2) اسلام سے پہلے لوگوں میں یہ عادت تھی۔ کہ مرنے والے پر اظہار غم کےلئے بلند آواز سے میت کی تعریفیں کرکے روتے تھے۔ اور گریبان چاک کردیتے تھے۔ اسلام میں ان چیزوں سے منع کردیا گیا ہے۔
(3)(لَیْسَ مِنَّا) ”وہ ہم میں سے نہیں“ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسی حرکات کرنے والا اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ وہ ہمارے طریقے پر نہیں مسلمانوں کا یہ طریقہ نہیں کیونکہ یہ اہل جاہلیت کی غلط عادتوں میں سے ہے۔ ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1584
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 999
´مصیبت کے وقت چہرہ پیٹنے اور گریبان پھاڑنے کی ممانعت کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو گریبان پھاڑے، چہرہ پیٹے اور جاہلیت کی ہانک پکارے ۱؎ ہم میں سے نہیں“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 999]
اردو حاشہ: 1؎: جاہلیت کی ہانک پکارنے سے مرادبین کرنا ہے، جیسے ہائے میرے شیر! میرے چاند، ہائے میرے بچوں کو یتیم کرجانے والے عورتوں کے سہاگ اجاڑدینے والے! وغیرہ وغیرہ کہہ کررونا۔ 2؎: یعنی ہم مسلمانوں کے طریقے پر نہیں۔ ایسے موقع پر مسلمانوں کے غیرمسلموں جیسے جزع وفزع کے طورطریقے دیکھ کراس حدیث کی صداقت کس قدرواضح ہوجاتاہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 999
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 285
حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے رخسار پیٹے یا گریبان چاک کیا یا جاہلیت کی پکار پکاری، تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ یہ یحییٰؒ کی حدیث ہے، لیکن ابنِ نمیرؒ اور ابوبکرؒ دونوں نے کہا: شَقَّ اور دَعَا الف کے بغیر (یعنی "او" کی جگہ "و" کہا۔)[صحيح مسلم، حديث نمبر:285]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : دَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ: جاہلیت کے دور کی پکار کا معنی ہے: نوحہ کرنا، جزع فزع کرنا، اپنے لیے تباہی و بربادی کی دعا کرنا۔ میت کے صحیح یا غلط کارناموں کو یاد کر کے، اس پر چیخنا چلانا، اور بد قسمتی سے یہ کام آج کل مسلمان گھرانوں کی عورتوں میں عام پائے جاتے ہیں۔ أعاذنا الله منها
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 285
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1294
1294. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نےکہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جو شخص اپنے رخسار پیٹے اور گریبان پھاڑے، نیز عہد جاہلیت کی طرح چیخ پکار کرے وہ ہم سے نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1294]
حدیث حاشیہ: یعنی ہماری امت سے خارج ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ حرکت سخت ناپسندیدہ ہے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1294
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1297
1297. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو اپنے رخسار پیٹے، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کا سا بکواس کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1297]
حدیث حاشیہ: جو لوگ عرصہ دراز کے شہید شدہ بزرگوں پر سینہ کوبی کرتے ہیں وہ غور کریں کہ وہ کسی طرح آنحضرت ﷺ کی بغاوت کررہے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1297
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1298
1298. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:”جس شخص نے(مصیبت کے وقت) اپنے رخسار پیٹے،گریبان پھاڑااور دور جاہلیت کے ناجائز کلمات کہے وہ ہم سے نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1298]
حدیث حاشیہ: یعنی اس کا یہ عمل ان لوگوں جیسا ہے جو غیر مسلم ہیں یا یہ کہ ہماری امت سے خارج ہے۔ بہر حال اس سے بھی نوحہ کی حرمت ثابت ہوئی
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1298
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1294
1294. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نےکہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جو شخص اپنے رخسار پیٹے اور گریبان پھاڑے، نیز عہد جاہلیت کی طرح چیخ پکار کرے وہ ہم سے نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1294]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کے معنی یہ نہیں کہ مذکورہ تین کام کرنے سے وعید کا سزاوار ہو گا بلکہ ان تینوں میں سے ہر کام مذکورہ وعید کا باعث ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ جو شخص مصیبت کے وقت اپنے رخسار پیٹے یا گریبان چاک کرے یا جاہلیت کی سی باتیں کرے وہ ہم سے نہیں۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 285 (103)(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت گریبان پھاڑنا اور رخسار پیٹنا حرام ہے، کیونکہ یہ اللہ کی تقدیر پر عدم رضا کی دلیل ہے۔ اگر کسی کو اس کی حرمت کا علم ہے، اس کے باوجود اسے حلال سمجھ کر ایسا کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ حضرت سفیان ثوری ؒ مذکورہ حدیث کے متعلق کسی قسم کی توجیہ یا تاویل کرنے سے منع کرتے تھے کہ اس سے وعید کا مقصد فوت ہو جاتا ہے جو لوگوں کو ایسے افعال شنیعہ سے روکنے کا باعث ہے۔ (فتح الباري: 209/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1294
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1297
1297. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو اپنے رخسار پیٹے، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کا سا بکواس کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1297]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ ﷺ کے ان افعال کے مرتکب لوگوں سے اظہار بے زاری کے معنی یہ ہیں کہ آپ اس شخص کے اس فعل سے راضی اور خوش نہیں ہیں۔ یہ انداز کبیرہ گناہوں کے متعلق اختیار کیا جاتا ہے، چنانچہ مصیبت کے وقت چلانا، نوحہ کرنا، رخسار پیٹنا، گریبان چاک کرنا، منہ نوچنا، بال کھول کر انہیں پھیلانا، واویلا کرنا اور دور جاہلیت کا سا بکواس کرنا اللہ کی تقدیر پر ناراض ہونے کے مترادف ہے، لہذا یہ کام بالاتفاق حرام ہے۔ والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1297
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1298
1298. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:”جس شخص نے(مصیبت کے وقت) اپنے رخسار پیٹے،گریبان پھاڑااور دور جاہلیت کے ناجائز کلمات کہے وہ ہم سے نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1298]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں واویلا کرنے کی ممانعت نہیں۔ امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کر کے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جسے حضرت ابو امامہ ؓ نے بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے اس عورت پر جو مصیبت کے وقت اپنا چہرہ نوچتی ہے، گریبان پھاڑتی ہے اور ہلاکت و تباہی کے بول منہ سے کہتی ہے۔ (سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث: 1585) اس حدیث میں واویلا کرنے کی صراحت ہے کہ مصیبت کے وقت ایسا کرنا ناجائز اور باعث لعنت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1298
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3519
3519. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو (مصیبت کے وقت) اپنے رخساروں کو پیٹے، گریباں پھاڑے اور دور جاہلیت کے نعرے لگائے وہ ہم سے نہیں ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3519]
حدیث حاشیہ: مصیبت کے وقت عصبیت کو ہوا دینا اور دوسروں کے جذبات کو اس پر ابھارنا دورجاہلیت کے نعرے ہیں۔ اگرانھیں حلال سمجھ کر کیا جائے توانسان دین سے خارج ہوجاتا ہے، بصورت دیگررسول اللہ ﷺ نے ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش کے طور پر فرمایا: ”وہ مسلمانوں کی روش پر نہیں ہے۔ “ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3519