موسیٰ بن ابی عائشہ نے عبید اللہ بن عبد اللہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! جب (بیماری کے سبب) نبی (کے حرکات وسکنات) بوجھل ہونے لگے تو آپ نے فرمایا: ” کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! نہیں، وہ سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرے لیے بڑے طشت میں پانی رکھو۔“ ہم نے پانی رکھا تو آپ نے غسل فرمایا: پھر آپ نے اٹھنے کی کوشش کی تو آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر آپ کو افاقہ ہوا تو فرمایا: ” کیا لوگوں نے نماز پڑھی لی؟“ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ” میرے لیے بڑے طشت میں پانی رکھو۔“ ہم نے رکھا تو آپ نے غسل فرمایا: پھر آپ اٹھنے لگے توآپ پر غشی طاری ہو کئی، پھر ہوش میں آئے تو فرمایا: ” کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟“ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میرے لیے بڑے طشت میں پانی رکھو۔“ ہم نے رکھا تو آپ نے غسل فرمایا: پھر اٹھنے لگے تو بے شہوش ہو گئے، پھر ہوش میں آئے تو فرمایا: ” کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرر ہے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لوگ مسجد میں اکٹھے بیٹھے ہوئے عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پیغام لانے والا ان کے پاس آیا اور بولا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا، اور وہ بہت نرم دل انسان تھے: عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ہی اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ان دنوں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ تخفیف محسوس فرمائی تو دو مردوں کا سہارا لے کر، جن میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے، نماز ظہر کے لیے نکلے، (اس وقت) ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹیں اور آپ نے ان دونوں سے فرمایا: ” مجھے ان کے پہلو میں بٹھا دو۔“ ان دونوں نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا، ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے راوی) عبید اللہ نے کہا: پھر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کی: کیا میں آپ کے سامنے وہ حدیث پیش نہ کروں، جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا: لاؤ۔ تو میں نے ان کے سامنے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی، انہوں نے اس میں سے کسی بات کا انکار نہ کیا، ہاں! اتنا کہا: کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے تمہیں اس آدمی کا نام بتایا جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے جواب دیا، کیوں نہیں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟“ ہم نے عرض کیا نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے لگن (ٹب) میں پانی رکھو۔“ ہم نے پانی رکھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرما لیا، پھر اٹھنے لگے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم ہوش میں آئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ ہم نے کہا نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ آپ کے منتظر ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے لگن (ٹب) میں پانی رکھو۔“ ہم نے پانی رکھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا، پھر اٹھنے لگے تو آپ پر بے غشی طاری ہو گئی، پھر ہوش میں آئے تو پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟“ ہم نے کہا نہیں، وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے ہیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے لیے پانی کا ٹب رکھو۔ ہم نے ایسا کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا، پھر اٹھنے لگے تو بے ہوش ہو گئے، پھر ہوش میں آئے تو پوچھا: ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ تو ہم نے کہا نہیں، وہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کا انتظار کر رہے ہیں، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا، لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے عشاء کی نماز کے لیے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، پیغامبر ان کے پاس آ کر کہنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں، آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو ابو بکر نے کہا، کیونکہ وہ بہت نرم دل تھے، اے عمر! لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو عمر نے جواب دیا، آپ ہی اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا، اس پر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دنوں جماعت کرائی، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ افاقہ محسوس کیا (مزاج میں آسانی پائی) تو دو مردوں کا سہارا لے کر جن میں ایک عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، نماز ظہر کے لیے نکلے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا رہے تھے تو جب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پیچھے ہٹنے لگے تو انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹو، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: مجھے ان کے پہلو میں بٹھا دو تو ان دونوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ابوبکر کے پہلو میں بٹھا دیا، راوی نے کہا، ابوبکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے اور لوگ ابوبکر کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، عبیداللہ نے بتایا پھر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا، اور ان سے عرض کیا، کیا میں آپ کو وہ حدیث نہ سناؤں، جو مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں سنائی ہے؟ انہوں نے کہا: سناؤ تو میں نے ان پر عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث پیش کی، انہوں نے اس میں کسی چیز پر اعتراض نہیں کیا، یا کسی بات کا انکار نہیں کیا، ہاں اتنا کہا کیا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تمہیں اس آدمی کا نام بتایا جو عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا، نہیں تو انہوں نے کہا، وہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔