حمزہ بن عبداللہ بن عمر نے بتایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئےسنا؛"جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب دینے کا ارادہ کرتاہے تو ہر شخص پر جو ان میں تھا، عذاب آتا ہے، اس کے بعد وہ اپنے اپنے اعمال کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔"
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب میں گرفتار کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ تمام (اچھے،برے)افراد پر عذاب نازل فر دیتا ہے، پھر انہیں اپنے اپنے عملوں پر اٹھایا جائے گا۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7234
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، بعض دفعہ دنیوی عذاب میں، برے لوگوں کے ساتھ، اچھے لوگ بھی عذاب کا شکار ہوجاتے ہیں، لیکن آخرت میں، ہر انسان کو جزاوسزا اپنے اپنے اعمال کے مطابق ملے گی، گناہ گار عقوبت وسزا کا مستحق ہوگا اور اطاعت گزار، اجرو ثواب کا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7234
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7108
7108. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو جوان میں موجود ہوتے ہیں ان تمام کو عذاب اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے پھر انہیں قیامت کے دن ان کے اعمال کے مطابق اٹھایا جائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7108]
حدیث حاشیہ: آیت قرآنی (وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً) میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ سچ کہا ہے کہ چنے کے ساتھ گیہوں پس جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7108
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7108
7108. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو جوان میں موجود ہوتے ہیں ان تمام کو عذاب اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے پھر انہیں قیامت کے دن ان کے اعمال کے مطابق اٹھایا جائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7108]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کے پیش کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ جنگ جمل یا جنگ صفین میں شامل تمام لوگ فریقین کے مخالف یا طرفدار نہیں تھے، یقیناً کچھ ایسے بھی ہوں گے جنھیں مجبوراً اس جنگ میں دھکیل دیا گیا، اگر وہ جنگ میں لقمہ اجل بن گئے ہوں تو قیامت کے دن ان کے ساتھ ان کی نیت کے مطابق سلوک کیا جائےگا، مثلاً: جب کسی گھر کی چھت گرتی ہے یا زلزلہ آتا ہے تو صرف بُرے لوگ ہی اس کی لپیٹ میں نہیں آتے بلکہ نیک لوگ بھی ہلاک ہو جاتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے: چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ 2۔ بہرحال جب فتنوں کا دور ہوتا ہے تو اس کی لپیٹ میں سب لوگ آ جاتے ہیں، اس لیے انسان کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فریضے سے کسی صورت میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ مداہنت اور سستی کرنے اس لیے انسان کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فریضے سے کسی صورت میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ مداہنت اور سستی کرنے والا، انھیں دیکھ کر خوش ہونے والا اور فتنوں کو بھڑکانے والا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم سلامتی کے طلبگار ہیں۔ (فتح الباري: 77/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7108