عثمان بن ابی شیبہ اور اسحٰق بن ابراہیم نے کہا: ہمیں جریر نے منصور سے حدیث بیان کی، انھوں نے سالم بن ابی جعد سے، انھوں نےاپنے والد سے اور انھوں نےحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص بھی نہیں مگر اللہ نے اس کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ایک ساتھی مقرر کردیا ہے (جو اسے برائی کی طرف مائل رہتا ہے۔) "انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے ساتھ بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اور میرے ساتھ بھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہوگیا، اس لیے (اب) وہ مجھے خیر کے سواکوئی بات نہیں کہتا۔"
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم میں سے ہر ایک کے ساتھ، اس کا ایک جن ساتھی لگا دیا گیا ہے۔"ساتھیوں نے پوچھا اور آپ کے ساتھی بھی؟اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے فرمایا:"میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے خلاف میری مدد فرماتا ہے اس لیے میں اس سے محفوظ رہتا ہوں یا وہ مطیع ہو گیا ہے اور مجھے صرف خیر اور بھلائی کا مشورہ دیتا ہے۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7108
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کے ساتھ ایک شیطان ساتھی لگا ہوا ہے، جو اس کو راہ راست سے بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے اور اسے غلط مشورہ دیتا ہے، اس سے صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ ہیں، وہ آپ کو اچھا مشورہ ہی دیتا ہے، غلط مشورہ دینے کی جسارت نہیں کرسکتا، اگر اَسلَمُ سمع سے مضارع متکلم کا صیغہ بنائیں تو معنی ہوگا، میں محفوظ رہتا ہوں، اگر اَسلَمَ اکرم کے وزن پر ماضی کا صیغہ ہو تو معنی ہوگا، وہ مطیع فرمانبردار بن گیا ہے اور اللہ کی قدرت سے یہ بھی باہر نہیں، اگر وہ مسلمان اور مؤمن بن جائے، بہرحال ہمیں ہر وقت شیطان سے ہوشیار اور چوکنارہنے کی ضرورت ہے، وہ ہر وقت داؤ میں رہتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7108
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 67
´ہم زاد` «. . . وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ وَقَرِينُهُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ. قَالُوا: وَإِيَّاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: وَإِيَّايَ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ فَلَا يَأْمُرُنِي إِلَّا بِخَيْرٍ ". رَوَاهُ مُسلم . . .» ”. . . سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک شخص کے ساتھ جنوں یا فرشتوں میں سے مصاحب اور ہم نشین ضرور مقرر کیا گیا ہے۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ کے ساتھ بھی مقرر کیا گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں میرے لیے بھی مقرر کیا گیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے میری اس (شیطان) پر مدد فرما دی ہے یعنی مجھے اس پر غلبہ دیا ہے، میں غالب رہتا ہوں وہ مغلوب رہتا ہے میں اس سے محفوظ و سالم رہتا ہوں یعنی اس کے شر و فساد سے بچا رہتا ہوں یا وہ میرا تعبدار و فرمانبردار ہے وہ مجھے صرف بھلائی ہی کی تلقین کرتا ہے۔“ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 67]
تخریج: [صحيح مسلم 7108]
فقہ الحدیث: ➊ ہر انسان پر دو قرین مقرر و مسلط کئے گئے ہیں، ایک قرین فرشتہ ہے جو اس کے دل میں نیکی اور خیر کی باتیں ڈالتا ہے اور دوسرا قرین جن (شیطان ہے)، جو اس کے دل میں شر اور نافرمانی کی باتیں ڈالتا ہے۔ فرشتہ نیکی کی طرف بلاتا ہے اور شیطان برائی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اب آدمی کو اختیار ہے کہ جس راستے پر چلنا چاہے، چلے لیکن یاد رہے کہ نیکی والے راستے پر چلنے والے کا انجام جنت اور برائی والے راستے پر چلنے والے کا انجام جہنم ہے۔ ➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے قرین پر غالب تھے، لہٰذا وہ آپ کو نیکی ہی کی ترغیب دیتا تھا۔ امت محمدیہ، اہل ایمان اللہ کے فضل و کرم سے شیطان (قرین) کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ جس کا جتنا ایمان مضبوط ہو گا وہ اتنا ہی شیطان کے شر اور وسوسوں سے محفوظ رہے گا۔ ➌ اس حدیث میں «فأسلم» کا لفظ دو طرح پڑھا گیا ہے: ① «فَاَسْلَمُ» پس میں (اس سے) سلامتی میں رہتا ہوں۔ ② «فَاَسْلَمَ» پس وہ مسلمان ہو گیا ہے . یہ لفظ دونوں طرح صحیح ہے اور دونوں معنی صحیح ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قرین مسلمان بھی ہو گیا تھا اور وہ آپ کو نیکی کی ترغیب ہی دیتا تھا۔ ➍ «ما» کا لفظ یہاں عموم کے معنی میں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے عموم ہی سمجھا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عموم کی تردید نہیں فرمائی۔ لغت میں «ما و من» کو عموم کے لئے قرار دیا گیا ہے اور عموم سے بعض افراد کو اس وقت ہی خارج قرار دیا جا سکتا ہے جب کوئی صریح دلیل یا قرینہ صارفہ موجود ہو۔ ➎ جنات انسانوں پر، اللہ کے اذن کے ساتھ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔