سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اس کا ایک جن اور ایک فرشتہ ساتھی مامور کر دیا گیا ہے۔ “ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بھی؟ آپ نے فرمایا: ”میرے ساتھ بھی لیکن اللہ نے اس کے خلاف میری اعانت کی تو وہ مطیع ہو گیا، وہ مجھے صرف خیرو بھلائی کی بات ہی کہتا ہے۔ “ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 67]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (69/ 2814)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 67
تخریج: [صحيح مسلم 7108]
فقہ الحدیث: ➊ ہر انسان پر دو قرین مقرر و مسلط کئے گئے ہیں، ایک قرین فرشتہ ہے جو اس کے دل میں نیکی اور خیر کی باتیں ڈالتا ہے اور دوسرا قرین جن (شیطان ہے)، جو اس کے دل میں شر اور نافرمانی کی باتیں ڈالتا ہے۔ فرشتہ نیکی کی طرف بلاتا ہے اور شیطان برائی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اب آدمی کو اختیار ہے کہ جس راستے پر چلنا چاہے، چلے لیکن یاد رہے کہ نیکی والے راستے پر چلنے والے کا انجام جنت اور برائی والے راستے پر چلنے والے کا انجام جہنم ہے۔ ➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے قرین پر غالب تھے، لہٰذا وہ آپ کو نیکی ہی کی ترغیب دیتا تھا۔ امت محمدیہ، اہل ایمان اللہ کے فضل و کرم سے شیطان (قرین) کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ جس کا جتنا ایمان مضبوط ہو گا وہ اتنا ہی شیطان کے شر اور وسوسوں سے محفوظ رہے گا۔ ➌ اس حدیث میں «فأسلم» کا لفظ دو طرح پڑھا گیا ہے: ① «فَاَسْلَمُ» پس میں (اس سے) سلامتی میں رہتا ہوں۔ ② «فَاَسْلَمَ» پس وہ مسلمان ہو گیا ہے . یہ لفظ دونوں طرح صحیح ہے اور دونوں معنی صحیح ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قرین مسلمان بھی ہو گیا تھا اور وہ آپ کو نیکی کی ترغیب ہی دیتا تھا۔ ➍ «ما» کا لفظ یہاں عموم کے معنی میں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے عموم ہی سمجھا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عموم کی تردید نہیں فرمائی۔ لغت میں «ما و من» کو عموم کے لئے قرار دیا گیا ہے اور عموم سے بعض افراد کو اس وقت ہی خارج قرار دیا جا سکتا ہے جب کوئی صریح دلیل یا قرینہ صارفہ موجود ہو۔ ➎ جنات انسانوں پر، اللہ کے اذن کے ساتھ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7108
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم میں سے ہر ایک کے ساتھ، اس کا ایک جن ساتھی لگا دیا گیا ہے۔"ساتھیوں نے پوچھا اور آپ کے ساتھی بھی؟اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!آپ نے فرمایا:"میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے خلاف میری مدد فرماتا ہے اس لیے میں اس سے محفوظ رہتا ہوں یا وہ مطیع ہو گیا ہے اور مجھے صرف خیر اور بھلائی کا مشورہ دیتا ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7108]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کے ساتھ ایک شیطان ساتھی لگا ہوا ہے، جو اس کو راہ راست سے بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے اور اسے غلط مشورہ دیتا ہے، اس سے صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ ہیں، وہ آپ کو اچھا مشورہ ہی دیتا ہے، غلط مشورہ دینے کی جسارت نہیں کرسکتا، اگر اَسلَمُ سمع سے مضارع متکلم کا صیغہ بنائیں تو معنی ہوگا، میں محفوظ رہتا ہوں، اگر اَسلَمَ اکرم کے وزن پر ماضی کا صیغہ ہو تو معنی ہوگا، وہ مطیع فرمانبردار بن گیا ہے اور اللہ کی قدرت سے یہ بھی باہر نہیں، اگر وہ مسلمان اور مؤمن بن جائے، بہرحال ہمیں ہر وقت شیطان سے ہوشیار اور چوکنارہنے کی ضرورت ہے، وہ ہر وقت داؤ میں رہتا ہے۔