جریر بن حازم نے یعلیٰ بن حکیم کی اسی سند کے ساتھ روایت کی، انہوں نے (سلیمان کے واسطے سے) رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، انہوں نے (اپنے چچاؤں میں سے ایک) کے الفاظ نہیں کہے
حضرت حنظلہ بن قیس رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے زمین کے کرایہ کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کا کرایہ لینے سے منع فرمایا ہے، تو میں نے پوچھا، کیا سونے اور چاندی کے عوض؟ تو انہوں نے کہا، سونے اور چاندی کے عوض دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3951
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت رافع کے نزدیک، زمین ٹھیکہ کے عوض دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن مزارعت کی بعض خاص صورتیں ناجائز ہیں، جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3951
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3393
´مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کا بیان۔` حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرایہ پر (کھیتی کے لیے) دینے سے منع فرمایا ہے، تو میں نے پوچھا: سونے اور چاندی کے بدلے کرایہ کی بات ہو تو؟ تو انہوں نے کہا: رہی بات سونے اور چاندی سے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3393]
فوائد ومسائل: ان سب احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ زمیندار (مزارعت میں) ایک ہی کھیت میں اپنے اور مزارع کےلئے الگ الگ حصوں کی پیداوار متعین کرلے تو اسطرح کی مزارعت ناجائز ہے۔ اور یہی وہ فاسد شرط ہے۔ جس کی موجودگی میں بٹائی کو ممنوع قراردیا گیا ہے۔ یہ قباحت نہ ہو بلکہ زمین متعین رقم یعنی ٹھیکے پر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3393