ہمام بن منبہ نے روایت کرتے ہوئے کہا: یہ وہ حدیثیں ہیں جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنائیں، پھر انہوں نے کچھ احادیث ذکر کیں، ان میں سے ایک یہ ہے، کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب میرا بندہ (دل میں) یہ بات کرتا ہے کہ وہ نیکی کرے گا تو میں اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہوں، جب تک عمل نہ کرے، پھر اگر اس کوعمل میں لے آئے تو میں اسے دس گناہ لکھ لیتا ہوں اور جب (دل میں) برائی کرنے کی بات کرتا ہے تو میں اسے معاف کر دیتا ہوں جب تک اس پر عمل نہ کرے۔ جب وہ اس کو عمل میں لے آئے تو میں اسے اس کے برابر (ایک ہی برائی) لکھتا ہوں۔“ اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” فرشتوں نے کہا: اے رب! یہ تیرا بندہ ہے، برائی کرنا چاہتا ہے او راللہ اس کو خوب دیکھ رہا ہوتا ہے، اللہ فرماتا ہے: اس پر نظر رکھو، پس اگر وہ برائی کرے تو اس کے برابر (ایک برائی) لکھ لو اور اگر اس کو چھوڑ دے تو اس کے لیے اسے ایک نیکی لکھو (کیونکہ) اس نے میری خاطر اسے چھوڑا ہے۔“ اوررسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب تم میں سے ایک انسان اپنے اسلام کو خالص کر لیتا ہے تو ہر نیکی جو وہ کرتا ہے، دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک لکھی جاتی ہے اور ہر برائی جو وہ کرتا ہے، اسے اس کے لیے ایک ہی لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ سے جاملتا ہے۔“
ہمام بن منبہؒ سے روایت ہے کہ یہ وہ حدیثیں ہیں جو ہمیں ابو ہریرہ ؓ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنائیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرا بندہ دل میں کسی نیکی کے کرنے کی بات کرتا ہے تو میں اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہوں، اگرچہ وہ اس پر عمل نہ کرے، پھر اگر اس کو عمل میں لے آئے تو میں دس گُنا لکھ لیتا ہوں۔ اور جب دل میں برائی کرنے کی بات کرتا ہے تو میں اسے معاف کر دیتا ہوں جب تک وہ اس کو نہ کرے، تو جب وہ اس کو عمل میں لے آئے تو ایک ہی برائی لکھتا ہوں۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے پوچھتے ہیں اے آقا! تیرا بندہ برائی کرنا چاہتا ہے (اور اللہ اس کو خوب دیکھ رہا ہوتا ہے۔) تو اللہ فرماتا ہے: اس کا انتظار کرو اگر برائی کرے تو اس کے برابر لکھ لو (ایک برائی لکھ لو)، اور اگر اس کو چھوڑ دے تو اسے اس کے لیے ایک نیکی لکھو، کیونکہ اس نے میری خاطر اسے چھوڑا ہے۔ (میرے ڈر یا عظمت کے احساس کی بنا پر ترک کیا ہے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک اپنے اسلام کو خالص کر لیتا ہے، احسان کی صفت اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے تو ہر وہ نیکی جسے وہ کرتا ہے اسے دس گُنا سے لے کر سات سو گُنا تک لکھا جاتا ہے۔ اور ہر وہ برائی جس کو وہ کر گزرتا ہے اس کو ایک ہی لکھا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ سے جا ملتا ہے (فوت ہو جاتا ہے)۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 129
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14738)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 336
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : مِنْ جَرَّايَ: میری خاطر، یا میرے واسطے۔ فوائد ومسائل: نیکی کے اجر وثواب کےمراتب میں فرق کا مدار نیکی کرنے والے کے جذبہ، اخلاص نیت، اس کے حالات اور موقع محل پر ہے، جس قدر انسان کے اندر نیکی کا ولولہ وجوش زیادہ اور اس کا اخلاص واحسان بلند درجہ کا ہوگا، وہ جس قدر ایثار وقربانی کا مظاہرہ کرے گا اور جس قدر موقع ومحل زیادہ مناسب اورمستحق ہوگا اس قدر ثواب زیادہ ہوگا، جو سات گنا بلکہ بلا حساب تک پہنچ جائے گا۔ اورجس قدر ان چیزوں میں کمی ہوگی اسی قدر ثواب کم ہوگا اور کم ہوتے ہوتے دس تک رہ جائے گا۔ اور بقول بعض: ان مراتب کا تعلق مختلف اعمال سے ہے، مثلا: عبادات بدنیہ پر دس گنا، صدقات وخیرات پر سات سو گنا اور صبر وثبات اور ضبط نفس پر بلا حساب ولامحدود۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 336
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 44
´نیکی اور برائی کا تقابل` «. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَحْسَنَ أَحَدُكُمْ إِسْلَامَهُ فَكُلُّ حَسَنَةٍ يَعْمَلُهَا تُكْتَبُ لَهُ بِعشر أَمْثَالهَا إِلَى سبع مائَة ضعف وكل سَيِّئَة يعملها تكْتب لَهُ بِمِثْلِهَا " . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے اسلام کو اچھا بنا لے تو اس کی ہر نیکی کا ثواب دس گنا لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی ایک نیکی کا ثواب سات سو نیکیوں کے برابر لکھا جاتا ہے اور برائی اپنے مثل لکھی جاتی ہے۔ (یعنی ایک برائی کا گناہ ایک ہی گناہ ہے) یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 44]
تخریج: [صحيح بخاري 42]، [صحيح مسلم 336]
فقہ الحدیث ➊ رب کریم اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہر نیکی کے بدلے دس گنا ثواب عطا فرماتا ہے، بلکہ لوگوں کی نیتوں پر بعض نیکوکاروں کو سات سو گنا ثواب بھی عطا کر دیتا ہے۔ ➋ گناہ گار کے نامہ اعمال میں گناہ کرنے کی وجہ سے صرف ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے۔ ➌ جنت اور جہنم والے اعمال کا دارومدار موت تک ہے۔ موت کے بعد اعمال تکلیفیہ (وہ اعمال جنہیں سر انجام دینے پر انسان مکلف، مامور یا مجبور ہے) منقطع ہو جاتے ہیں۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 42
´ اسلام و ایمان کے ایک ہونے کے عقیدہ کا اثبات` «. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَحْسَنَ أَحَدُكُمْ إِسْلَامَهُ، فَكُلُّ حَسَنَةٍ يَعْمَلُهَا تُكْتَبُ لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَكُلُّ سَيِّئَةٍ يَعْمَلُهَا تُكْتَبُ لَهُ بِمِثْلِهَارٌ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص جب اپنے اسلام کو عمدہ بنا لے (یعنی نفاق اور ریا سے پاک کر لے) تو ہر نیک کام جو وہ کرتا ہے اس کے عوض دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر برا کام جو کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 42]
� تشریح: حضرت امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر یہاں بھی اسلام و ایمان کے ایک ہونے اور ان میں کمی و بیشی کے صحیح ہونے کے عقیدہ کا اثبات فرمایا ہے اور بطور دلیل ان احادیث پاک کو نقل فرمایا ہے جن سے صاف ظاہر ہے کہ ایک نیکی کا ثواب جب سات سو گنا تک لکھا جاتا ہے تو یقیناً اس سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے اور کتاب و سنت کی رو سے یہی عقیدہ درست ہے جو لوگ ایمان کی کمی و بیشی کے قائل نہیں ہیں اگر وہ بنظر غائر عمیق کتاب و سنت کا مطالعہ کریں گے تو ضرور ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا۔ اسلام کے بہتر ہونے کا مطلب یہ کہ اوامر و نواہی کو ہر وقت سامنے رکھا جائے۔ حلال حرام میں پورے طور پر تمیز کی جائے، اللہ کا خوف، آخرت کا طلب، دوزخ سے پناہ ہر وقت مانگی جائے اور اپنے اعتقاد و عمل و اخلاق سے اسلام کا سچا نمونہ پیش کیا جائے اس حالت میں یقیناً جو بھی نیکی ہو گی اس کا ثواب سات سو گنا تک زیادہ کیا جائے گا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ سعادت عظمیٰ نصیب فرمائے۔ آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 42
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:42
42. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنے اسلام کو اچھا کرے تو وہ ہر اچھائی جس کو وہ بجا لائے گا، دس گنا سے سات سو گنا تک لکھی جائے گی اور ہر وہ برا کام جو وہ کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے (جتنا اس نے کیا ہے)۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:42]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسن اسلام کی ایک صفت ہے اور حسن میں مراتب قائم ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام میں بھی مراتب قائم ہوں گے اس بنا پر اس میں کمی بیشی بھی ہوگی، نیز اس سے ان لوگوں کی تردید بھی مقصود ہے جو ایمان کے لیے اعمال کی ضرورت کا یکسر انکار کرتے ہیں کیونکہ اسلام کا حسن، اعمال کا مرہون منت ہے۔ جب ان کا اختیارکرنا وجہ حسن ہے تو ان کا ترک باعث نقصان ہوگا۔ پھر اس باب کی ماقبل سے مناسبت یہ ہے کہ پہلے باب میں"الصلاة من الإیمان" فرمایا اور اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں حسن بھی نماز سے آتا ہے۔ (عمدۃ القاری: 369/1) 2۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کافر اگر سچے دل سے مسلمان ہو جائے تو ایام کفر کی نیکیاں بھی اس کے بطاقہ اعمال میں لکھ دی جائیں گی۔ (سنن النسائي، الإیمان، حدیث: 5001۔ والصحیحة للألباني، حدیث: 247) اس سے معلوم ہوا کہ کافر اگر مسلمان ہو جائے تو زمانہ کفر کی نیکیوں کا بھی اسے ثواب ملے گا۔ اس کی تائید حضرت حکیم بن حزام کی روایت سے بھی ہوتی ہےانھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ مجھے ایام جاہلیت کے اچھے کاموں کا کچھ فائدہ ہو گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے سابقہ اعمال خیر کو ساتھ لیے ہوئے مسلمان ہوئے ہو۔ یعنی اسلام کی برکت سے تمھارے جملہ اعمال خیر قائم ہیں۔ “(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1436) 3۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جو طاعات زمانہ کفر میں کی گئی ہیں ان کی دو اقسام ہیں: (1) جن کے لیے نیت شرط ہے اور نیت کی شرط اسلام ہے، اس لیے کافر کا کوئی عمل عبادت نہیں بن سکتا۔ (2) قربات: عبادت کے علاوہ دیگر امور خیر قربات میں شامل ہیں۔ یہ دنیا میں اس کی نیک نامی کا باعث ہو سکتے ہیں اور آخرت میں تخفیف عذاب کا سبب بن سکتے ہیں کیونکہ عذاب سے نجات کے لیے تو ایمان شرط ہے جیسا کہ ابو طالب کے متعلق احادیث میں آیا ہے۔ بہر حال کافر کی طاعات وقربات عذاب میں تخفیف پیدا کردیتی ہیں جبکہ وہ کفر پر مرا ہو، اگر اسلام پر خاتمہ ہوتو اللہ تعالیٰ اسلام کی برکت سے بطور احسان ان اعمال خیر پر بھی ثواب عطا فرمائے گا۔ جو بحالت کفر کیے ہوں گے۔ (فتح الباري: 134/1) 4۔ اصول قصاص کا مطلب یہ ہے کہ اگر نیکی کا عمل ہے تو اس پر ثواب کم از کم دس گنا کردیا جائے گا اور یہ آخری حد نہیں بلکہ بقدر اخلاص درجات بڑھتے رہیں گے حتیٰ کہ یہ اضافہ سات سو تک پہنچ جاتا ہے بلکہ معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ”اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو تک بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ عطا فرماتا ہے۔ “(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 338(131) اس میں شرط یہ ہے کہ نمائش مقصود نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ حسنات کی جائیں اور جہاں تک سيئات (برائیوں) کا تعلق ہے تو انھیں بڑھا کر نہیں لکھا جاتا بلکہ جس درجے کی سیئہ (برائی) ہوگی، اسی قدر اس کی جزا لکھی جاتی ہے۔ 5۔ اسلام کے بہترہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اوامر و نواہی کو ہر وقت سامنے رکھا جائے حلال وحرام میں پورے طور پر تمیز کی جائے اللہ کا خوف رکھا جائے۔ جنت کی طلب کی جائےجہنم سے پناہ مانگی جائے اپنے اعتقاد وعمل اور اخلاق و کردار سے اسلام کا سچا نمونہ پیش کیا جائے۔ اس حالت میں جو نیکی کی جائے گی اس کا ثواب سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تک دیا جائےگا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 42