وعن عياض بن حمار رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من وجد لقطة فليشهد ذوي عدل وليحفظ عفاصها ووكاءها ثم لا يكتم ولا يغيب فإن جاء ربها فهو أحق بها وإلا فهو مال الله يؤتيه من يشاء» . رواه أحمد والأربعة إلا الترمذي وصححه ابن خزيمة وابن الجارود وابن حبان.
سیدنا عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس کسی کی کوئی گمشدہ چیز کہیں گری پڑی ملے تو اسے چاہیئے کہ دو منصف و عادل آدمیوں کو اس پر گواہ بنا لے اور خود اس کے ڈاٹ اور سربند کو خوب یاد رکھے اور پھر اسے چھپانے اور غائب کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پھر اگر اس چیز کا اصل مالک آ جائے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے۔ اگر نہ آئے تو وہ اللہ کا مال ہے، وہ جسے چاہتا ہے عنایت فرما دیتا ہے۔“ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے سوائے ترمذی کے اور ابن خزیمہ، ابن جارود اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 802]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، اللقطة، باب التعريف باللقطة، حديث:1709، وابن ماجه، اللقطة، حديث:2505، والنسائي في الكبرٰي كما في تحفة الأشراف:11013، وأحمد:4 /162، 266، وابن حبان(الموارد)، حديث:1169.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 802
تخریج: «أخرجه أبوداود، اللقطة، باب التعريف باللقطة، حديث:1709، وابن ماجه، اللقطة، حديث:2505، والنسائي في الكبرٰي كما في تحفة الأشراف:11013، وأحمد:4 /162، 266، وابن حبان(الموارد)، حديث:1169.»
تشریح: اس حدیث کی رو سے جب لقطہ ملے تو اس وقت گواہ بنانا واجب ہے۔ مگر امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں مستحب ہے۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ خدانخواستہ یکے بعد دیگرے دو آدمی آ کر اس کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور علامات اور نشانیاں بھی بتا دیتے ہیں تو اب یہ کس کو دے؟ اسی جھگڑے سے محفوظ رہنے کے لیے گواہ بنانا ضروری ہے کیونکہ پوری اور صحیح علامات تو صرف مالک اصلی ہی بتا سکے گا۔ اور یہ گواہوں کی موجودگی میں واپس دے کر اس جھگڑے کو ختم کر سکے گا۔
راویٔ حدیث: «حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ» عیاض کے ”عین“ اور حمار کے ”حا“ کے نیچے کسرہ ہے۔ مشہور صحابی ہیں۔ نسبتاً تمیمی مجاشعی ہیں۔ انھوں نے بصرہ کو جائے سکونت قرار دے لیا تھا اور پچاس ہجری کے آخر تک زندہ رہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 802
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1709
´لقطہٰ کی پہچان کرانے کا بیان۔` عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے لقطہٰ ملے تو وہ ایک یا دو معتبر آدمیوں کو گواہ بنا لے ۱؎ اور اسے نہ چھپائے اور نہ غائب کرے، اگر اس کے مالک کو پا جائے تو اسے واپس کر دے، ورنہ وہ اللہ عزوجل کا مال ہے جسے وہ چاہتا ہے دیتا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب اللقطة /حدیث: 1709]
1709. اردو حاشیہ: گواہ بنانا نہ تو واجب ہے اور نہ ہر وقت ممکن ہی۔لیکن یہ انتہائی پسندیدہ صورت ہے تاکہ انسان شیطانی اکساہٹ سے محفوظ ہو جائے اور اس کے دل میں اس کے مالک بن جانے کا وسوسہ پیدا نہ ہو۔اس کے ذریعے سے کئی دوسری قباحتوں سے بھی بچا جاسکتا ہے جیسے اس کے ورثاء اس کو ادا کرنے سے انکار نہ کر سکیں یا کوئی شخص مال کی مقدار کےبارےمیں اس پر تہمت نہ لگا سکے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1709
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2505
´راستہ سے اٹھائی ہوئی گری پڑی چیز کا بیان۔` عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو کوئی گری پڑی چیز ملے تو وہ ایک یا دو معتبر شخص کو اس پر گواہ بنا لے، پھر وہ نہ اس میں تبدیلی کرے اور نہ چھپائے، اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے، ورنہ وہ اللہ کا مال ہے جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2505]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) گواہ بنانے کا فائدہ یہ ہے کہ بعد میں کوئی شخص آ کر یہ دعوی نہ کرے کہ یہ چیز تومیری ہے لیکن اس میں خیانت کی گئی ہے مثلاً: وہ تھیلی کی علامات پوری بتا دیتا ہے اور جب اسے وہ تھیلی دی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اس میں سے کچھ رقم نکال لی گئی ہے تو گواہ اس کی تردید کریں گے کہ رقم اتنی ہی تھی۔
(2) وہ اللہ کا مال ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس شخص کو یہ مل دیے دیا ہے اب (ایک سال کےبعد) اس کےلیے اس کا استعمال جائز ہو گیا ہے۔
(3) اسلام میں دیانت داری کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ گم شدہ چیز مالک کو واپس کرنا دیانت داری کا مظہر ہے۔ اس میں دوسرے کی خیر خواہی بھی ہے اور حرام یا مشکوک رزق سے اجتناب بھی۔ یہ سب صفات ایک مومن میں ہونا ضرور ی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2505