مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1158
1158. اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ رات کو نمازِ تہجد پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ نبی ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے خواب بیان کیا کرتے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ آخری عشرے کی ساتویں رات لیلۃ القدر ہے۔ نبی ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا: ”تمہارے خواب لیلۃ القدر کے متعلق اس پر متفق ہیں کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے، لہذا اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1158]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کتاب الصیام میں باب تحری لیلۃ القدر کے تحت میں فرماتے ہیں:
في ھذہ الترجمة إشارة إلی رجحان کون لیلة القدر منحصرة في رمضان ثم في العشر الأخیر منه ثم في أوتارہ لا في لیلة منھا بعینھا وھذا ھو الذي یدل علیه مجموع الأخبار الواردة فیھا۔
(فتح)
یعنی لیلۃ القدر رمضان میں منحصر ہے اور وہ آخری عشرہ کی کسی ایک طاق رات میں ہوتی ہے جملہ احادیث جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
باقی تفصیل کتاب الصیام میں آئےگی۔
طاق راتوں سے 21, 23, 25, 27, 29 کی راتیں مراد ہیں۔
ان میں سے وہ کسی رات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
احادیث سے یہی ثابت ہوا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1158
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2015
2015. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دوران خواب میں رمضان کی آخری سات راتوں میں شب قدر دکھائی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھارےسب کے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لیے جو اس کو تلاش کرنا چاہے وہ آخری ساتھ راتوں میں تلاش کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2015]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے تحت حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
و في هذا الحدیث دلالة علی عظم قدر الرؤیاء و جواز الاستناد إلیها في الاستدلال علی الأمور الوجودیة بشرط أن لا یخالف القواعد الشرعیة۔
(فتح)
یعنی اس حدیث سے خوابوں کی قدر و منزلت ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ ان میں امور وجودیہ کے لیے استناد کے جواز کی دلیل ہے بشرطیکہ وہ شرعی قواعد کے خلاف نہ ہو، فی الواقع مطابق حدیث دیگر مومن کا خواب نبوت کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔
قرآن مجید کی آیت شریفہ ألا إِن أولیاءَ اللہ الخ میں بشریٰ سے مراد نیک خواب بھی ہیں، جو وہ خود دیکھے یا اس کے لیے دوسرے لوگ دیکھیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2015