عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے متعلق پوچھا گیا اور میں (اس گفتگو کو) سن رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پورے رمضان میں کسی بھی رات ہو سکتی ہے ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سفیان اور شعبہ نے یہ حدیث ابواسحاق کے واسطے سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوفًا روایت کی ہے اور ان دونوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً نہیں نقل کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1387]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:7065) (ضعیف) والصحیح موقوف» (اس کے راوی أبواسحاق مختلط ہو گئے تھے اور یہ معلوم نہیں کہ موسیٰ نے ان سے اختلاط سے پہلے روایت کی ہے یا بعد میں)
وضاحت: ۱؎: کثرت احادیث کی بناء پر شب قدر کے سلسلہ میں علماء میں زبردست اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ رمضان میں ہے، پھر راجح یہ ہے کہ وہ رمضان کے اخیر عشرہ میں ہے، پھر ظن غالب یہ ہے کہ وہ طاق راتوں میں ہے، پھر لائق اعتماد قول یہ ہے کہ یہ ستائیسویں رات میں ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف والصحيح موقوف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو إسحاق مدلس وعنعن وللحديث شواھد ضعيفة عند أحمد (5/ 318) وغيره وروي الطحاوي في معاني الآثار (3/ 74) بسند صحيح عن ابن عمر: ’’ ھي في كل رمضان ‘‘ من قوله موقوفًا عليه وھو صحيح انوار الصحيفه، صفحه نمبر 55
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1387
1387. اردو حاشیہ: لیلۃ القدر کے رمضان المبارک میں ہونے میں تو کوئی اختلاف نہیں۔ علاوہ ازیں دلائل کی رو سے راحج بات یہ ہے کہ یہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ اور ان میں سے بھی بعض کے نذدیک 27 ویں شب کا امکان زیادہ ہے۔ واللہ اعلم۔ باقی رہی یہ روایت جس میں سارے رمضان میں ہونے کی صراحت ہے۔ اس کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ خود امام ابودائود ؒ نے بھی وضاحت کی ہے۔ شیخ البانی ؒ نے بھی اسی موئقف کو تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح حدیث 1384 بھی ضعیف ہے۔ جس میں سترھویں رات میں بھی ہونے کا امکان موجود ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1387
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 271
´لیلتہ لقدر کا بیان` «. . . 210- وبه: أن رجالا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أروا ليلة القدر فى المنام فى السبع الأواخر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني أرى رؤياكم قد تواطأت فى السبع الأواخر، فمن كان متحريها فليتحرها فى السبع الأواخر . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ لیلتہ القدر (رمضان کے) آخری سات دنوں میں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب لگاتار ایک دوسرے کے موافق ہیں کہ آخری سات دنوں میں لیلتہ القدر ہے، پس جو شخص اسے تلاش کرنا چاہے تو آخری سات دنوں میں تلاش کرے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 271]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2015، ومسلم 1165، من حديث مالك به] تفقه: ➊ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ ➋ مختلف افراد کا ایک جیسے لگاتار خواب دیکھنا آسمانی اشارے یا بشارت میں سے ہے بشرطیکہ یہ کسی نص صریح کے خلاف نہ ہوں۔ ➌ مومن کا خواب نبوت کے چالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ ➍ خوابوں کے لئے دیکھئے: [ح121، 127، 375] ➎ لیلۃ القدر کے لئے دیکھئے: [ح148، 283]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 210
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 575
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان` سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ مردوں کو آخری ہفتہ میں شب قدر دکھائی گئی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں تمہاری خواب کو دیکھتا ہوں جو آخری ہفتہ میں موافق آیا ہے۔ اگر کوئی اس کو تلاش کرنے والا ہو تو وہ آخری ہفتہ میں اسے تلاش کرے۔“(بخاری ومسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 575]
575 لغوی تشریح: «اُرُوا» «اِراءَةٌ» سے ماخوذ صیغہ مجمہول ہے۔ «فِي السَّبَع الَّاوَاخِرِ» اس سے آخری سات دن مراد ہیں جن کی ابتدا تئیس کی رات سے ہوتی ہے۔ «اُرَي» یہ صیغہ مجہول جو «اَظُنُّ» کے معنی میں ہے اور «اَظُنُّ» صیغہ معلوم ہے۔ اس کے معنی ظن و گمان کے ہیں کہ میں گمان کرتا ہوں۔ «تَوَاطَاَتْ» کے معنی موافقت کے ہیں۔ «مُتَحرَّبَهَا» جو اس کا طالب ہو۔ یہ «اَلتَّحَرَي» سے ماخوذ ہے جس کے معنی مطلوب کو حاصل کرنے میں کوشش اور جستجو کرنا ہیں۔ ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 575
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1385
´شب قدر کا رمضان کی آخری سات راتوں میں ہونے کی روایت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب قدر کو اخیر کی سات راتوں میں تلاش کرو۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1385]
1385. اردو حاشیہ: ا س میں بھی اجمال ہے۔ آخری سات راتوں میں طاق اورجفت دونوں ہی شامل ہیں۔ اگرصرف طاق راتیں مراد لی جایئں۔ تو سترہویں رات سے شمار کرنا ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1385
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:647
647-سالم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: میں نے شب قدر کو خواب میں دیکھا ہے کہ وہ فلاں فلاں رات ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ دیکھ رہاہوں کہ تم لوگوں کے خواب ایک جیسے ہیں، تو تم آخری عشر ے میں طارق راتوں میں اسے تلاش کرو۔ (راوی کو شک ہے شاہد یہ الفاظ ہیں)”باقی رہ جانے والی سات راتوں میں تلاش کرو۔“ سفیان کہتے ہیں: روایت میں یہ شک میری طرف سے ہے، زہری کی طرف سے نہیں ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:647]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ شیطان انسان کا بہت بڑا دشمن ہے، یہاں تک کہ کھانے اور پینے میں میں بھی شیطان انسان کو بائیں ہاتھ سے کھانے اور پینے پر اکساتا ہے، اکثر مسلمان غفلت کی بنا پر شیطان کے پیروکار بنے بیٹھے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 650
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1158
1158. اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ رات کو نمازِ تہجد پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ نبی ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے خواب بیان کیا کرتے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ آخری عشرے کی ساتویں رات لیلۃ القدر ہے۔ نبی ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا: ”تمہارے خواب لیلۃ القدر کے متعلق اس پر متفق ہیں کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے، لہذا اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1158]
حدیث حاشیہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کتاب الصیام میں باب تحری لیلۃ القدر کے تحت میں فرماتے ہیں: في ھذہ الترجمة إشارة إلی رجحان کون لیلة القدر منحصرة في رمضان ثم في العشر الأخیر منه ثم في أوتارہ لا في لیلة منھا بعینھا وھذا ھو الذي یدل علیه مجموع الأخبار الواردة فیھا۔ (فتح) یعنی لیلۃ القدر رمضان میں منحصر ہے اور وہ آخری عشرہ کی کسی ایک طاق رات میں ہوتی ہے جملہ احادیث جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ باقی تفصیل کتاب الصیام میں آئےگی۔ طاق راتوں سے 21, 23, 25, 27, 29 کی راتیں مراد ہیں۔ ان میں سے وہ کسی رات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ احادیث سے یہی ثابت ہوا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1158
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2015
2015. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دوران خواب میں رمضان کی آخری سات راتوں میں شب قدر دکھائی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھارےسب کے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لیے جو اس کو تلاش کرنا چاہے وہ آخری ساتھ راتوں میں تلاش کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2015]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے تحت حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں: و في هذا الحدیث دلالة علی عظم قدر الرؤیاء و جواز الاستناد إلیها في الاستدلال علی الأمور الوجودیة بشرط أن لا یخالف القواعد الشرعیة۔ (فتح) یعنی اس حدیث سے خوابوں کی قدر و منزلت ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ ان میں امور وجودیہ کے لیے استناد کے جواز کی دلیل ہے بشرطیکہ وہ شرعی قواعد کے خلاف نہ ہو، فی الواقع مطابق حدیث دیگر مومن کا خواب نبوت کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ قرآن مجید کی آیت شریفہ ألا إِن أولیاءَ اللہ الخ میں بشریٰ سے مراد نیک خواب بھی ہیں، جو وہ خود دیکھے یا اس کے لیے دوسرے لوگ دیکھیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2015
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1158
1158. اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ رات کو نمازِ تہجد پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ نبی ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے خواب بیان کیا کرتے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ آخری عشرے کی ساتویں رات لیلۃ القدر ہے۔ نبی ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا: ”تمہارے خواب لیلۃ القدر کے متعلق اس پر متفق ہیں کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں ہے، لہذا اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1158]
حدیث حاشیہ: (1) دراصل ایک ہی حدیث کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ مقصود صرف عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق نماز تہجد کے التزام کو بیان کرنا ہے۔ (2) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق تہجد پڑھنے کا ذکر آپ کے شاگرد حضرت نافع نے کیا ہے جبکہ اس سے قبل آپ کے بیٹے حضرت سالم نے بھی اس قسم کا ذکر کیا تھا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1158
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2015
2015. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو دوران خواب میں رمضان کی آخری سات راتوں میں شب قدر دکھائی گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھارےسب کے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لیے جو اس کو تلاش کرنا چاہے وہ آخری ساتھ راتوں میں تلاش کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2015]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب آخری عشرے پر متفق ہیں، اس لیے اگر کوئی شب قدر کو تلاش کرنا چاہے تو وہ آخری عشرے میں اسے تلاش کرے۔ “(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1158)(2) حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں شب قدر کے متعلق دو گروہوں نے خواب دیکھے۔ ایک گروہ کا خواب تھا کہ وہ آخری سات راتوں میں ہے اور دوسرے گروہ کا خواب تھا کہ وہ آخری عشرے میں ہے۔ اس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 6991) آپ نے پہلے تو آخری عشرے میں شب قدر کا خواب دیکھنے والوں سے فرمایا: ”تمہارا سب کا اتفاق ہے آخرے عشرے پر ہے، لہذا تم شب قدر اسی عشرے میں تلاش کرو۔ “ بلکہ ایک روایت کے مطابق آپ نے آخری عشرے کی طاق راتوں میں انہیں تلاش کرنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري، فضل لیلةالقدر، حدیث: 2017) پھر آپ نے دیکھا کہ آخری سات راتوں پر دونوں گروہوں کا اتفاق ہے تو آپ نے جزم کے ساتھ آخری سات راتوں میں اسے تلاش کرنے کے متعلق کہا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی مذکور روایت میں ہے۔ پھر آخری سات راتوں کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ ظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعداد چوبیسویں رات سے شروع ہو گی تو اس میں اکیسویں اور تئیسویں رات شامل نہیں ہو گی جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ بائیس سے شروع ہو کر اٹھائیس تک سات راتیں مراد ہیں، اس صورت میں انتیسویں رات اس میں شامل نہیں ہو گی۔ ہمارے نزدیک فیصلہ کن صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ اگر کسی وجہ سے کمزور یا مغلوب ہو جاؤ تو باقی سات راتوں میں اسے تلاش کر کے غلبہ حاصل کرو۔ “(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2765(1165) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری سات راتوں سے مراد تئیس سے شروع کر کے آخر تک ہیں۔ (فتح الباري: 325/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2015
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6991
6991. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں کو خواب میں شب قدر سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی جبکہ کچھ لوگوں کو دکھائی گئی کہ وہ آخری دس تاریخوں میں ہوگی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم اسے آخری سات تاریخوں میں تلاش کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6991]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں پرمتفق ہیں، لہذا تم اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرو۔ “(صحیح البخاري، فضل لیلة القدر، حدیث: 2015) لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حسب عادت ظاہر طریقے کے بجائے مخفی طریقے سے مسئلہ ثابت کیا ہے، یعنی چند لوگوں نے دیکھا کہ آخری دس تاریخوں میں ہے اور کچھ لوگوں کو آخری سات تاریخوں میں دکھائی گئی تو کم از کم آخری سات پرتمام کا اتفاق ثابت ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقی معاملہ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ (فتح الباري: 475/12) 2۔ اس سلسلے میں بھی انسان کو ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ 400 ہجری میں جب فتنہ مہدی اٹھا تو اس فتنے کی بنیاد بھی خوابوں کا توارد، یعنی مختلف علاقوں کے رہنے والے مختلف لوگوں کو ایک جیسے خواب آنا تھا۔ ایک آدمی یمن سے آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے محمد بن عبداللہ قحطانی کو مہدی کی شکل میں دیکھا ہے۔ دوسرا مصری ہے اور وہ بھی یہی کہتا ہے۔ تیسرا نائجیری بھی اس طرح کا خواب بیان کرتا ہے۔ اس طرح وہ تحریک اٹھی اور وہ لوگ بیت اللہ میں جا گھسے، پھر ہوا جو ہوا۔ یہ ہماراچشم دید واقعہ ہے۔ کیونکہ راقم الحروف ان دنوں شرط الجیاد میں بحیثیت مترجم تعینات تھا۔ 3۔ بہرحال انسان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق ہر لحاظ سے، ہرجگہ اور ہر حال میں مضبوط رکھنا چاہیے۔ ان خوابوں پر کسی چیز کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ اگرچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب پر ایک جماعت کا اتفاق کر لینا اس کے سچے اور صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ (فتح الباري: 475/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6991