وعن معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال في ليلة القدر:«ليلة سبع وعشرين» . رواه أبو داود، والراجح وقفه. وقد اختلف في تعيينها على أربعين قولا أوردتها في فتح الباري.
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کے بارے میں فرمایا ”دہ ستائیس کی رات ہے“(ابوداؤد) اس حدیث کا موقوف ہونا زیادہ راجح ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ شب قدر کی تعیین میں اختلاف کیا گیا ہے، اس بارے میں چالیس اقوال ہیں۔ جنہیں میں نے فتح الباری میں نقل کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصيام/حدیث: 576]
تخریج الحدیث: « أخرجه أبوداود، الصلاة، باب من قال سبع وعشرون، حديث:1386.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 576
576 لغوی تشریح: «وَالرَّاجِحُ وَقْفُهُ» یعنی راجح یہ ہے کہ یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں، البتہ یہ حکماً مرفوع ہے۔ «وَقَدِ اخْتُلِفَ فِي تَعْيينِهَا . . . الخ» اس کے تعین میں اختلاف کیا گیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں چالیس اقوال نقل کیے ہیں مگر ان میں راجح اور زیادہ قوی قول یہ ہے کہ شب قدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے اور وہ منتقل ہوتی رہتی ہے۔ کبھی اکیس، کبھی تئیس، کبھی پچیس، کبھی ستائیس اور کبھی انتیس کی رات کو آتی ہے۔ اور جن روایات میں بڑے جزم اور پختگی سے تعین کا ذکر ہے، جیسے اسی روایت میں ستائیس کا ذکر اور بعض روایات میں اکیس اور بعض میں تئیس کا ذکر ہے تو یہ اس لیے کہ جس سال آپ نے یہ حدیث سنائی اس سال اسی رات شب قدر تھی، یوں نہیں کہ ہمیشہ اسی رات ہی شب قدر ہو گی۔ مگر بعض نے اس سے سمجھ لیا کہ ہمیشہ شب قدر اسی رات ہو گی۔ اس بارے میں اختلاف کا سبب بھی درحقیقت یہی ہے۔ ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 576
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1386
´شب قدر ستائیسویں رات میں ہے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔` معاویہ بن ابی سفیان سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کے متعلق فرمایا: ”شب قدر ستائیسویں رات ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1386]
1386. اردو حاشیہ: امام شافعی رحمۃ للہ وغیرہ کہتے ہیں۔ کہ جن مختلف راتوں میں لیلۃ القدر ہونے کا ذکر ہے۔ وہ ہمیشہ کےلئے نہیں ہیں۔ بلکہ یہ حسب حال سوالوں کے جوابات تھے۔ مثلا وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں؟ آپ فرماتے ہیں۔ ہاں! فلاں رات میں تلاش کرو۔ واللہ اعلم۔ اور جس نے جو سنا اسی کاقائل رہا۔ اور ستایئسیویں رات کےشب قدر ہونے کے قائلین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ (عون المعبود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1386