الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الزكاة
زکوٰۃ کے مسائل
1. (أحاديث في الزكاة)
1. (زکوٰۃ کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 504
وعن بلال بن الحارث رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أخذ من المعادن القبلية الصدقة. رواه أبو داود.
سیدنا بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل (جگہ کا نام) میں واقع کانوں سے زکوٰۃ وصول کی۔ (ابوداؤد) [بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 504]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الخراج والإمارة، باب في إقطاع الأرضين، حديث:3061.»

   سنن أبي داودأقطع بلال بن الحارث المزني معادن القبلية وهي من ناحية الفرع فتلك المعادن لا يؤخذ منها إلا الزكاة إلى اليوم
   بلوغ المراماخذ من المعادن القبلية الصدقة

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 504 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 504  
لغوی تشریح 504:
مَعَادِن معدن کی جمع ہے۔ مَعدِنٌ میں دال کے نیچے کسرہ ہے۔ اسے اردو میں کان کہتے ہیں، یعنی زیر زمین وہ حصہ جہاں اللہ تعالیٰ نے سونا، چاندی اور جواہرات وغیرہ پیدا فرماے ہوں۔
اَلْقَبَلِیَّۃِ قاف اور با پر فتحہ ہے۔ قبل کی طرف نسبت ہے جو فُرْع کے نواح میں ایک جگہ کا نام ہے۔ اور فُرْع میں فا پر ضمہ اور را ساکن ہے۔ اور ایک قول کے مطابق دونوں پر ضمہ ہے۔ مدینے کے بالائی حصے میں ساحل سمندر کی جانب واقع ہے اور مکہ و مدینہ کے درمیان، مدینہ سے آٹھ برد (تقریباً 96 میل) کے فاصلے پر ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ جگہ چار دن کی مسافت پر واقع ہے۔ اس میں بہت سی مساجد اور بستیاں ہیں۔ معدن اور رکاز (کان اور دفینہ) دونوں لغوی اعتبار سے مختلف ہیں اور اسی طرح حکماً اور شرعاً بھی مختلف ہیں۔

فائدہ 504:
مذکورہ روایت کو فاضل محقق نے حسن قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ الله اس کی بابت لکھتے ہیں کہ حضرت بلال بن حارث کو معادن (کانوں) کا دیا جانا ثابت ہے مگر اس میں زکاۃ لینے کا جو ذکر ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ دیکھیے: [ارواء الغليل: 312، 311/3 حديث: 830]
بنابریں اس کی بابت راجح موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ کانوں سے نکلنے والی چیزوں میں زکاۃ نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت کچھ ثابت نہیں، البتہ اس کی آمدنی پر بشرطیکہ نصاب کو پہنچ جائے اور سال بھی گزر جائے۔ تو زکاۃ ہے خمس نہیں۔ «والله اعلم»
راوئ حدیث حضرت بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزینہ قبیلے سے ہونے کی وجہ سے مزنی کہلائے۔ کنیت ابوعبدالرحمٰن تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں 5 ہجری میں مزینہ قبیلے کے وفد کے ساتھ ان کے نمائندے کی حیثیت سے آئے تھے۔ مدینہ کے پیچھے سکونت اختیار کی۔ بھر بصرہ میں منتقل ہوگے تھے۔ فتح مکہ کے روز انہوں نے مزینہ قبیلے کا جھنڈا اٹھایا ہوا تھا۔ 80 برس کی عمر میں 60 ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 504   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3061  
´زمین جاگیر میں دینے کا بیان۔`
ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے کئی لوگوں سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی کو فرع ۱؎ کی طرف کے قبلیہ ۲؎ کے کان دیئے، تو ان کانوں سے آج تک زکاۃ کے سوا کچھ نہیں لیا جاتا رہا۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3061]
فوائد ومسائل:
حضرت بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاون (کانوں) کا دیا جانا ثابت ہے۔
جیسے کہ آگے آرہا ہے۔
مگر اس میں ذکواۃ لینے کا جو ذکر ہے۔
اس کی بابت شیخ البانی فرماتے ہیں۔
کہ وہ صحیح نہیں ہے۔
(إرواالغلیل:311/1، 312، حدیث: 830)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3061