وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال في كنز وجده رجل في خربة: «إن وجدته في قرية مسكونة فعرفه وإن وجدته في قرية غير مسكونة ففيه وفي الركاز الخمس» أخرجه ابن ماجه بإسناد حسن.
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خزانے کے بارے میں جو کسی آدمی کو ویرانے سے حاصل ہوا ہو (ملا ہو) فرمایا ”اگر تو نے یہ خزانہ کسی آباد جگہ سے پایا ہے تو اس کی تحقیق کیلئے اعلان کرو اور اگر تو نے کسی غیر آباد جگہ سے پایا ہے تو اس میں اور معدنیات میں (پانچواں حصہ) ہے۔“ اسے ابن ماجہ نے حسن سند سے نکالا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الزكاة/حدیث: 503]
تخریج الحدیث: «قال المؤلف "أخرجه ابن ماجه" ولم أجده، وأخرجه أبوداود، اللقطة، حديث:1710، وصححه الحاكم:2 /56، ووافقه الذهبي.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 503
لغوی تشریح: «فِي خَرِبَةِ»”خا“ پر فتحہ اور ”را“ کے نیچے کسرہ ہے۔ شکستہ بے آباد مقام جہاں کوئی نہ رہتا ہو۔ «فِي قَرْيَةٍ مَسْكُوْنَةٍ» جہاں لوگ آباد ہوں، یعنی یہ ویران اور بے آباد جگہ، آبادی والے علاقے میں ہو۔ «فَعَرَّفْهُ» تعریف (تفیعل) سے امر کا صیغہ ہے، تو لوگوں میں اس کا اعلان کرو اور اس کی کیفیت بیان کرو حتٰی کہ اس کا مالک آ جائے اور یا پھر اس پر پورا سال گزر جائے۔ ایسی صورت میں تمھارے لیے اس کا کھانا صحیح اور درست ہے، بہرحال اس خزانے کی نوعیت گری پڑی چیز کی سی ہو گی۔ «وَاِنْ وَجَدْتَهُ فِي قَرْيَةٍ غَيْرَ مَسْكُونَةٍ» یعنی اگر تو اسے غیر آباد جگہ میں پائے تو اس کا حکم رکاز کے حکم جیسا ہو گا۔ یا یوں کہیے کہ دونوں کے حکم کی نوعیت اموال غنیمت کے حکم جیسی ہو گی۔ «وَفِي الرِّكَازِ» میں موجود ”واؤ“ عطف اس بات کی متقاضی ہے کہ جب خزانہ زمین کے پیٹ سے نہ نکالا جائے تو اسے رکاز نہیں کہتے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 503
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2496
´کان کی زکاۃ کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راستہ میں پڑی ہوئی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جو چیز چالو راستے میں ملے یا آباد بستی میں، تو سال بھر اسے پہنچواتے رہو، اگر اس کا مالک آ جائے (اور پہچان بتائے) تو اسے دے دو، ورنہ وہ تمہاری ہے، اور جو کسی چالو راستے یا کسی آباد بستی کے علاوہ میں ملے تو اس میں اور جاہلیت کے دفینوں میں پانچواں حصہ ہے“(یعنی: زکاۃ نکال کر خود استعمال کر لے)۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2496]
اردو حاشہ: (1) اس روایت میں کان (معدنی) کا ذکر نہیں۔ شاید امام نسائی رحمہ اللہ نے کان کو لقطہ کا حکم دیا ہے کیونکہ کان بھی عموماً بے آباد جگہ پر اور راستے سے دور مقامات میں ہوتی ہے۔ اس صورت میں کان سے نکلنے والی معدنیات میں سے پانچواں حصہ بیت المال کا ہوگا، باقی کان دریافت کرنے والے کا ہوگا۔ احناف کا بھی یہی موقف ہے مگر اس کی کوئی صریح دلیل نہیں سوائے قیاس کے۔ لقطہ پر قیاس کیا جائے یا مدفون خزانے پر یا مال غنیمت پر۔ جمہور اہل علم، جیسے مالک، شافعی، احمد اور امام بخاری رحمہم اللہ نے اسے مال تجارت سمجھ کر اس پر چالیسواں حصہ زکاۃ عائد کی ہے۔ مناسب بھی یہی ہے کیونکہ صریح حکم کے بغیر سخت زکاۃ، یعنی پانچواں حصہ مناسب نہیں جیسا کہ احناف کا خیال ہے۔ (2) آمد ورفت والے راستے سے یا آباد بستی کے لقطہ (گری پڑی چیز جو کسی کو مل جائے) میں مالک کے ملنے کا امکان زیادہ بلکہ یقینی ہوتا ہے، اس لیے اعلان کا حکم دیا اور وہ بھی ایک سال تک کیونکہ سال میں عموماً سفر دوبارہ ہو ہی جاتا ہے۔ غیر آباد راستے یا آبادی سے دور ملنے والی چیز کے مالک کے ملنے کا امکان کم ہوتا ہے، لہٰذا اعلان کی ضرورت محسوس نہ فرمائی، البتہ اس میں حکومت کا حصہ پانچواں رکھ دیا کیونکہ یہ مال اسے بغیر محنت کے ملا ہے۔ امام صاحب نے معدنی کان کو بھی اس پر قیاس کر لیا کہ وہ بھی بغیر محنت کے ملتی ہے، حالانکہ کان دریافت کرنے کے لیے بہت محنت بلکہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں اور پھر کان سے معدنیات نکالنے میں بھی بہت محنت اور اخراجات کی ضرورت پڑتی ہے، لہٰذا یہ قیاس مناسب نہیں۔ واللہ أعلم (3)”ورنہ تیرے لیے جائز ہے۔“ احناف نے اسے فقیر کے ساتھ خاص کیا ہے، حالانکہ اگر ایسی بات ہوتی تو رسول اللہﷺ ضرور بیان فرماتے ہیں کیونکہ آپﷺ کا فرمان تو مستقل حجت ہے۔ اس کے لیے صرف یہ امکان کافی نہیں کہ سائل فقیر ہوگا۔ بعض روایات میں آپ نے یہی اجازت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو فرمائی تھی، حالانکہ وہ مشہور غنی تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2496